یونیفارم والا فوجی افسر بطور جج کیسے غیرجانبدار ہوسکتا ہے؟ آئینی بینچ

سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف سماعت کے دوران اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی جب جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یونیفارم فوجی افسر بطور جج کیسے غیرجانبدار ہوسکتا ہے؟ جس پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ یونیفارم تو آپ ججز نے بھی پہنا ہوا ہے۔
ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کےخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی،جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 7 رکنی آئینی بینچ نے کی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آج بھی دلائل دیےوہ کل بھی دلائل دیں گے،
سماعت شروع ہوئی تو وکیل خواجہ حارث نے آرمی ایکٹ اور پولیس کی ایف آئی آر میں چارج فریم کےحوالے سے عدالت کو آگاہ کیا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیاکہ آرمی ایکٹ میں انکوائری کون کرتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیاکہ چارج کےبعد انکوائری کمانڈنٹ آفیسر کرتا ہے،تفتیش کا مکمل طریقہ کار بتاؤں گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ فرد جرم عائد کرنے کےبعد انکوائری کیسے کرتےہیں؟ ایف آئی ار کیسے ہوتی؟خواجہ حارث نے بتایاکہ الزام لگادیتے ہیں،چارج اسی کےلیے لفظ استعمال ہوتا ہے،چارج کی بنیاد پر تفتیش کی جاتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ جب تک الزام نہ ہو تو آرمی ایکٹ کا مرتکب نہیں کہا جاسکتا،چارج فریم ہونا ضروری ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ کیا دوران ٹرائل بھی چارج فریم ہوتا ہے؟ خواجہ حارث نے بتایاکہ چارج الگ ہوتا ہے،دوران ٹرائل چارج فریم ہوتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا فوجی عدالتوں میں ججز یونیفارم میں ہوتے ہیں؟ خواجہ حارث نے جواب دیا ہ کورٹ مارشل میں ججز فوجی یونیفارم میں ہی ہوتےہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نےکہا کہ یونیفارم فوجی افسر بطور جج کیسے غیرجانبدار ہوسکتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا ہ یونیفارم تو آپ ججز نے بھی پہنا ہوا ہے۔( خواجہ حارث کےجواب پر عدالت میں قہقہے سنائی دیے)۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ آپ کہنا چاہتےہیں کالی اور خاکی وردی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھاکہ تفتیشی افسر کون تعینات کرتا ہے؟ خواجہ حارث نےبتایا کہ تفتیش کیسے ہوتی ہے اس سے عدالت کو آگاہ کروں گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ پہلے چارج ہوا، چارج کی بنا پر تفتیش ہوئی۔ ایف بی علی کیس میں بھی یہی بات ہوئی ہ پہلے چارج فریم ہوتا ہےپھر تفتیش ہوتی ہے۔جب تک جرم کو آرمی ایکٹ کےمطابق ثابت نہیں کریں گےکیا وہ ملٹری ٹرائل میں ہی آئےگا۔ خواجہ حارث نےجواب دیاکہ چارج میں الزامات ثابت کروائےجاتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہا کہ چارج کا ٹرائل سے کوئی تعلق نہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ تفتیش میں چارج نہیں ہوتا؟ جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھاکہ ٹرائل میں بھی چارج فریم ہوتا ہے؟
جسٹس مسرت ہلالی نےکہا کہ ہم نے شروع میں کہا تھاکہ جن کےخلاف ثبوت نہیں ہیں ان کا فیصلہ تو کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ جو آپ پڑھ رہےہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ قانون ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ یہ قانون جتنا بھی سخت ہو کیا یہ سویلین پر لاگو ہوگا؟ خواجہ حارث نے بتایاکہ تمام چیزیں عدالت کےسامنے رکھوں گاکہ کیسے لاگو ہوگا؟
جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ جو قانون آپ بتارہے ہیں کہ ان پر واقعی عملدرآمد بھی ہوتاہے؟ خواجہ حارث نے بتایاکہ ٹرائل سےقبل ملزم سے پوچھا جاتاہے کہ جج پر اعتراض تو نہیں؟ جسٹس مسرت ہلالی نےکہا کہ آج کل تو یہاں بھی ججوں پر سوالات اُٹھ رہےہیں۔ خواجہ حارث نے واب دیاکہ کورٹ مارشل کے فیصلے اکثریت سے ہوتےہیں۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے فیصلے واپس لے لیے
بعد ازاں کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔