علیمہ خان نے عمران خان کو ملکی سیاست سے کس طرح مائنس کیا؟

اپنی تیسری بھابھی بشری بی بی عرف پنکی پیرنی کی گرفتاری کے بعد سے تحریک انصاف پر قابض ہو کر پارٹی چلانے والی علیمہ خان کے غیر سیاسی فیصلوں نے نہ صرف پارٹی کو کمزور تر کر دیا ہے بلکہ عمران خان کو بھی ملکی سیاست سے مائنس کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کے دوران علیمہ خان نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ عمران خان اب سیاست سے مائنس ہو چکے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ تسلیم نہیں کہ عمران کے مائنس ہونے کی وجہ انکی بڑی بہن کے غیر سیاسی فیصلے ہیں۔

 پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ علیمہ خان کی جانب سے تحریک انصاف کو ٹیک اوور کرنے کے بعد سے پی ٹی آئی کے اندر اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ انکا کہنا یے کہ علیمہ خان پارٹی کو کنٹرول میں لے چکی ہیں، اور اس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا بریگیڈ کی جانب سے علیمہ کی بتائی ہوئی پالیسی پر عمل کرنا ہے۔ پارٹیز رائے کا کہنا ہے کہ علیمہ خود سے اختلاف کرنے والے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو بھی بے لگام سوشل میڈیا بریگیڈ سے تنقید کا نشانہ بنوا رہی ہیں۔ اس صورتحال نے پارٹی کے اندر ایک بڑی تقسیم پیدا کر دی ہے، اس تقسیم کی وجہ سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا ایک اہم موقع بھی ضائع ہوا لہذا عمران بدستور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

 سینیئر صحافی انصار عباسی کے مطابق علیمہ خان صرف سوشل میڈیا پر پارٹی کا بیانیہ طے نہیں کر رہیں بلکہ وہ اپنے بھائی اور دیگر بہنوں کے ذریعے اہم سیاسی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کو مسلسل یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ انہیں انکی پارٹی کی مرکزی قیادت نے تنہا کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں انکا پارٹی پر کنٹرول کمزور ہو رہا ہے، عمران کو یہ بھی فیڈ کیا جا رہا ہے کے انکے کچھ لوگ پارٹی پر قبضے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ پی ٹی آئی پر علیمہ خان کا قبضہ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے۔ پارٹی کے ایک سینئر لیکن غیر منتخب رہنما کو علیمہ خان کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ ان دونوں کی قیادت میں پارٹی کے اندر ایک ایسا گروپ فعال ہو چکا ہے جو منتخب رہنمائوں بشمول چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو پارٹی کے آفیشل اور نان آفیشل سوشل میڈیا اکائونٹس پر شدید تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔

گوہر خان اور علی امین پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ پارٹی کے سخت مؤقف سے ہٹ گئے ہیں لہٰذا انہیں ’’غدار‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق، حالیہ دنوں میں حکومت سے بامعنی مذاکرات کی ایک نئی کوشش، جسے بااثر حلقوں کی حمایت بھی حاصل تھی، علیمہ کے سخت رویے اور عمران کو دیے گئے پیغامات کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل نومبر میں بھی ایک ڈائیلاگ بشریٰ بی بی کی مداخلت کے باعث ناکام ہوا تھا، جب انہوں نے سنجگانی میں جلسہ کرنے سے انکار کر دیا اور ڈی چوک کی طرف مارچ پر اصرار کیا، اس کے نتیجے میں 26؍ نومبر کو بشری بی بی کو جوتیاں اٹھا کر اسلام آباد سے فرار ہونا پڑا تھا۔ لہٰذا ایک ایسے موقع پر پارٹی کو سخت نقصان پہنچا جب وفاقی حکومت اسکے ساتھ مذاکرات کیلئے راضی تھی۔

 گنڈاپور نے اقتدار بچانے کیلئے عمران خان کے احکامات کو ہوا میں کیسے اڑایا؟

انصار عباسی بتاتے ہے کہ علی امین گنڈاپور کو حال ہی میں ’’بااثر حلقوں‘‘ سے مثبت اشارے ملے تھے کہ وہ وفاقی حکومت سے بات چیت کا آغاز کریں، تاہم علیمہ خان نے اس پیشرفت کی مخالفت کی اور کہا کہ عمران خان نے ایسی کسی بات چیت کی اجازت نہیں دی، لہٰذا یہ عمل رک گیا۔چند ہفتے قبل، بیرسٹر گوہر خان نے جیل میں عمران خان سے ملاقات کی اور پارٹی کو بتایا کہ بانی نے وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے قومی اسمبلی میں دی گئی مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے، تاہم بعد ازاں، جب عمران خان کی جیل میں اپنی بہنوں سے ملاقات ہوئی، تو اُن کا موقف یکسر بدل گیا۔ عمران نے پارٹی قائدین کو بتایا کہ کچھ ’’غلط فہمی‘‘ ہو گئی تھی اور واضح کیا کہ حکومت سے کسی بھی قسم کی بات چیت نہیں ہو گی۔ البتہ، صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہی سیاسی بات چیت ہو سکتی ہے۔

پارٹی میں پائی جانے والی اندرونی کشمکش خیبرپختونخوا اسمبلی میں مالی سال 2025-26 کا بجٹ پیش کیے جانے کے وقت مزید بڑھ گئی، جب علیمہ اور ان کے قریبی ساتھیوں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ بجٹ کی منظوری عمران کی اجازت کے بغیر نہ دی جائے۔ چونکہ وزیر اعلیٰ گنڈاپور کو اپنے قائد سے ملاقات کی اجازت نہ مل سکی، لہٰذا وہ آئینی تقاضوں کے تحت بجٹ کا عمل مکمل کرنے پر مجبور ہوگئے۔ نتیجتاً پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انہیں ایک بار پھر ’’غدار‘‘ قرار دیا گیا اور ’’مائنس عمران فارمولے‘‘ پر کام کرنے کا الزام لگا دیا گیا، جسے گنڈاپور نے سختی سے مسترد کیا۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر منتخب شخصیات کی بڑھتی مداخلت اور فیصلوں کو صرف عمران کے خاندانی دائرے میں محدود کرنے سے پارٹی کی ساخت کمزور اور سیاسی مواقع ضائع ہو رہے ہیں۔

Back to top button