بشری بی بی نے عمران کا جلاوطنی کی ڈیل کا چانس کیسے ختم کیا؟

اگر عمران خان کے لیے نواز شریف کی طرح رہائی کے بعد جلاوطنی کی ڈیل کا کوئی امکان موجود تھا تو وہ بھی بشری بی بی کے سعودی عرب مخالف بیان کے بعد ختم ہو گیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب وہ واحد اسلامی ملک تھا جو کہ ماضی کی طرح عمران خان کے لیے بھی رہائی اور جلاوطنی کی ڈیل حاصل کر سکتا تھا لیکن اب وہ امکان بھی ختم ہو گیا ہے کیونکہ بشرا بی بی نے جو الزام عائد کیا ہے وہ ناقابل معافی ہے۔

یاد رہے کہ بشری نے نہ صرف یہ الزام عائد کیا ہے کہ ان کے شوہر کی حکومت کے خاتمے میں سعودی عرب کا کردار تھا بلکہ یہ دعوی بھی کیا ہے کہ سعودی حکمرانوں نے جنرل باجوا کو فون کر کے عمران خان کے حوالے سے کہا کہ ’ہم تو اپنے ملک میں شریعت ختم کرنے جا رہے ہیں اور تم شریعت کے ٹھیکیدار کو ہمارے ہاں لے آئے ہو۔ ہمیں یہ نہیں چاہیے۔ اس کے بعد سے عمران خان کے خلاف میڈیا میں گند ڈالنا شروع کر دیا گیا، انہیں یہودی ایجنٹ کہنا شروع کیا گیا۔ بشری بی بی کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ بات غلط ہو تو آپ جنرل باجوہ اور ان کے خاندان سے پوچھ لیں کیونکہ انہوں نے یہ باتیں کسی کو بتائی تھیں جو ہم لوگوں تک بھی پہنچی تھیں۔ تاہم جنرل باجوا نے بشری کے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔

بشرٰی بی بی کے ویڈیو بیان کو حکومتی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حکومتی وزرا نے الزام عائد کیا ہے کہ بشرٰی بی بی نے پاکستان اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے اندرونی حلقے سمجھتے ہیں کہ اس بیان کا سب سے زیادہ نقصان عمران خان کو ہوا ہے کیونکہ سعودی عرب وہ واحد ملک تھا جو کسی سٹیج پر عمران خان کو جلاوطنی کی ڈیل دلوا سکتا تھا۔ پاکستانی سیاست میں سعودی عرب کا ذکر کوئی نئی بات نہیں اور اس سے قبل بھی سعودی حکمرانوں کا پاکستان کی سیاست میں کردار رہا ہے۔

یاد رہے کہ جب 1999 میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ پلٹا اور انھیں قانونی مسائل کا سامنا ہوا تو نواز شریف بھی ڈیل کے نتیجے میں جلا وطنی کاٹنے سعودی عرب ہی گئے تھے۔ تب سعودی حکمرانوں نے جنرل پرویز مشرف کو جلاوطنی کی ڈیل پر قائل کیا تھا۔ ایسا بھی پہلی بار نہیں ہوا کہ عمران کی سیاست کے حوالے سے سعودی عرب کا ذکر سامنے آیا ہو۔ عمران کی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اس وقت خراب ہوتے ہوئے نظر آئے جب اس وقت کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے معاملے پر سعودی عرب سے کُھل کر شکوہ کیا۔

جب انڈیا کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا کا ایک سال مکمل ہوا تو شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ’آج میں سعودی عرب سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کا وہ مسلمان جو آپ کے لیے لڑ مرنے کو تیار ہے آج وہ آپ سے تقاضا کر رہا ہے کہ آپ کشمیر کے معاملے پر وہ قائدانہ کردار ادا کریں جو مسلم امہ آپ سے توقع کر رہی ہے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو میں عمران خان سے کہوں گا کہ اب مزید انتظار نہیں ہو سکتا۔ ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔ سعودی عرب کے ساتھ یا اس کے بغیر، ہمیں آگے بڑھنا ہو گا۔‘

تاہم اس بیان کے بعد عمران کی حکومت شدید تنقید کی زد میں آئی اور اسے سعودی عرب کے حوالے سے کئی وضاحتیں جاری کرنی پڑیں۔ اب ایک بار پھر سعودی عرب کے حوالے سے ایک بیان کے سبب سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت ایک بار پھر تنقید کی زد میں ہے۔ صحافی اور تجزیہ کار راشد رحمان کے خیال میں بشرٰی بی بی کے اس وقت اس قسم کے بیان کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی ’اس وقت بے چینی سے ایسے بیانیے کی تلاش میں ہے جس سے وہ بتا سکے کہ باہر سے مداخلت کی وجہ سے عمران خان کو اقتدار سے نکالا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے پی ٹی آئی نے امریکہ اور خاص طور پر ڈونلڈ لو کو اس بیانیے کے لیے استعمال کیا کہ بیرونی مداخلت کی وجہ سے ان کی حکومت ختم ہوئی۔ لیکن اس کے بعد پھر پی ٹی آئی ہی نے امریکہ میں لابنگ کرتے ہوئے عمران اور ان کی جماعت کے لیے امریکی کانگریس کے ذریعے ریلیف لینے کی کوششیں بھی کی ہیں۔ اب سعودی عرب کو بھی اس بیانیے میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم بشرٰی کے بیان کی صداقت کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں لہذا سعودی عرب پر الزام لگا کر عمران کے حق میں بیانیہ بنانے کی یہ کوشش ناکام ہو گئی ہے۔

کیا خیبر پختونخواہ میں بڑھتی دہشت گردی انٹیلیجنس کی ناکامی ہے ؟

اس حوالے سے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کہتے ہیں کہ بشری بی بی سعودی عرب کے جس دورے کا ذکر کر رہی ہیں اس کے دوران تو عمران اور ان کی اہلیہ نے سعودی شاہی خاندان کی طرف سے قیمتی ترین تحائف وصول کیے تھے جو بیچ کر دونوں نے کروڑوں روپے کمائے تھے۔ اگر سعودیز کو عمران کا ننگے پاؤں مدینہ آنا اتنا بُرا لگا ہوتا تو وہ ان کو اتنے مہنگے تحائف سے بالکل نہ نوازتے۔ جواجہ آصف سمجھتے ہیں کہ بعض حلقوں میں یہ تاثر ضرور پایا جاتا ہے کہ سعودی حکام کو عمران کی جانب سے شاہی خاندان کے خلاف کی گئی گفتگو رپورٹ ہو گئی تھی لیکن اس وجہ سے شاہی خاندان عمران خان کی حکومت ختم کروانا چاہے گا، یہ ماننا مشکل ہے۔‘

خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ویسے بھی اگر تحریک انصاف میں کوئی سمجھتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے فارغ ہونے والے عمران کو پارلیمینٹ نے نہیں بلکہ سعودی عرب نے نکلوایا تھا تو اس بارے میں پہلے کبھی بات کیوں نہیں کی گئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ 24 نومبر کے احتجاجی دھرنے کو کامیاب بنانے کے لیے بشرہ بی بی نے مذہبی کارڈ کھیلنے کی ناکام کوشش کی ہے۔

Back to top button