بشری کی جانب سے بریلوی کارڈ کھیلنے کی کوشش کیسے بیک فائر ہوئی ؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ بشری بی بی نے بظاہر 24 نومبر کے احتجاج سے پہلے پی ٹی آئی کے ورکرز کو متحرک کرنے کے لیے سعودی عرب مخالف گفتگو کرتے ہوئے بریلوی کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کی جو کہ ناکام ہو گئی اور پی ٹی آئی کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہو گیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ بشری بی بی کے بیان نے طالبان اور عسکریت پسند عناصر کو تو ضرور خوش کیا ہو گا لیکن اس سے پاکستانی عوام کی اکثریت ناراض ہوئی ہے۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ یہ بات اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہمیشہ بحث طلب رہے گی کہ مذہب کو سیاست اور ریاست میں دخل اندازی کا حق ہونا چاہئے یا نہیں۔ دین پسندوں کا اصرار ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، انکے مطابق محمد علی جناح نے کہا تھا کہ پاکستان کا آئین قرآن ہی ہو گا، ان کا نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ تھا، لہٰذا آپ پاکستان کے معاملات سے دین کو کیسے نکال سکتے ہیں۔
لیکن دوسری جانب معاشرے میں موجود سیکولر عناصر بابائے قوم کے وہ الفاظ یاد دلاتے ہیں جو کہ انہوں نے اسلامی نظریاتی ریاست کے حصول کے بعد کہے۔ انکے مطانق جناح کا کہنا تھا کہ مذہب کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہو گا، ہر فرد کو مسجد، مندر، چرچ اور گودوارے میں آزادی اور مرضی جانے کی آزادی ہو گی، کسی کے نظریات اور عقائد سے ریاست کا کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا قائداعظم نے ان خطرات کو بھانپ لیا تھا جو مذہب کی سیاست اور ریاست میں مداخلت سے سامنے آ سکتے تھے۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ آج کے پاکستان پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مذہب کی سیاست میں مداخلت نے پاکستان کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیکولر حکومت کو ختم کرنے اور اس کے بعد اسلام کے نام پر ریفرنڈم کے ذریعے خود کو صدر بنوانے والے ضیاء الحق نے مذہب کاٹ کر سب سے زیادہ استعمال کیا۔ اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نظام مصطفی کی تحریک بھی ضیا نے اسلام کے نام پر ہی چلوائی تھی حالانکہ اس سے پہلے بھٹو خود اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کروا چکے تھے، اور جمعے کی چھٹی کا اعلان کر چکے تھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ تحریک نظام مصطفی کے نتیجے میں بھٹو حکومت کی خاتمے کے بعد کیا پاکستان میں واقعی اسلام نافذ ہو گیا۔
سیاسی مبثرین کے مطابق یہ درست ہے کہ ضیاء الحق نے تیزی سے بڑھتی ہوئی ماڈرنائزیشن اور ویسٹرنائزیشن کو روکا مگر وہ بنیادی طور پر یہ فوجی آمر کے اقتدار کی لیپا پوتی تھی۔ انہوں نے اپنے ریفرنڈم میں چوائس دی کہ قوم اسلام کا نفاذ چاہتی ہے تو ان کو ووٹ دے۔ ضیاء الحق دور کی نام نہاد اسلامائزیشن کی پالیسی نے پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی کی آخری حدوں تک پہنچا دیا جس سے فرقہ واریت کو بھی عروج ملا۔ ضیاء الحق دور میں شیعہ سنی کارڈ بھی بے دردی کیساتھ کھیلا گیا۔ ضیاء نے امریکی ایما پر اقتدار کو طول دینے کے لیے افغانستان میں مداخلت کر کے جہاد کا کلچر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے اندر جہادی تنظیموں کی بھر مار ہو گئی۔
لیکن یہ دور بریلوی ایکٹوازم کا دور نہیں تھا، کیونکہ تب دیوبندی مکتبہ فکر متحرک ہوا تھا۔ اس نے افغانستان میں امریکا کی مدد سے روس کو شکست دی تو اس کے حوصلے بلند ہوئے مگر روس کی شکست کے بعد مجاہدین بے روزگار ہو گئے۔ ضیاء الحق کے دور میں ہی دیوبندی مکتبہ فکر کی سپاہ صحابہ اور شیعہ مکتبہ فکر کی سپاہ محمد نے طاقت حاصل کی۔ نوازشریف اور بے نظیر کے نوے کی دہائی کے ادوار کا سب سے بڑا چیلنج یہی دونوں تنظیمیں تھیں جو اپنے بنانے والوں کے قبضہ قدرت سے باہر نکل چکی تھیں۔
سیاسی تجزیہ کار یاد دلاتے ہیں کہ سپاہ محمد اور سپاہ صحابہ کا دور، ٹی ٹی پی جیسا ہی تھا جب ہر طرف قتل و غارت ہو رہی تھی۔
شیعہ سنی کارڈ کے بعد بریلوی دیوبندی کارڈ سب سے خطرناک رہا ہے۔۔ بریلوی عام طور پر دم درود کرنے والے اور حلوے مانڈے کھانے والے معصوم لوگ ہیں جو پیروں کی اتباع کرتے ہیں مگر یہ محض افسانہ نہیں کہ نواز شریف دور میں جب عمران کا دھرنا سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا تو بریلوی کارڈ نے نواز لیگ کی قومی اسمبلی کی تین سے چار درجن نشستیں چھین کر پی ٹی آئی کے حوالے کر دیں۔ تب شاہ محمود قریشی اب کالعدم قرار دی گئی تنظیم کے دھرنوں میں بیٹھا کرتے تھے، جناب شیخ رشید جلادو، گرادو کے نعرے لگاتے ہوئے اپنے مجاہد ختم نبوت کے پوسٹرز چھپوایا کرتے تھے۔ یاسمین راشد نے بھی ایک شور میں کلثوم نواز کو شکست دینے کے لیے لاہور کے حلقے سے بریلوی کارڈ کھیلا تھا۔ اسی کارڈ کے تحت نواز شریف پر جوتا اچھالا گیا اور احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اس شرپسندی کے پیچھے محض سیاسی مقاصد تھے۔
بشری بی بی نے عمران کا جلاوطنی کی ڈیل کا چانس کیسے ختم کیا؟
لیکن سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ ہماری سیاسی اور مذہبی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی تخلیق کردہ مذہبی قوتیں کسی کی وفادار نہیں رہیں۔ یہ حقائق ہیں کہ تحریک طالبان جنہوں نے تخلیق کی اسی نے ان پر سب سے زیادہ حملے کئے ہیں جو جاری ییں۔ آگ کے کھیل میں وقتی طور پر لطف ملتا ہے مگر یہ آگ ہمیشہ دامن کو پڑجاتی ہے، اور اپنا ہی لباس اور بدن تک جلا دیتی ہے۔ کچھ ایسا ہی بشری بی بی کے معاملے میں بھی ہوا ہے جنہوں نے سعودی عرب پر الزامات عائد کرتے ہوئے بریلوی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی لیکن یہ واردات الٹی پڑ گئی اور فائدے کی بجائے تحریک انصاف اور عمران خان کا ایک بڑا نقصان ہو گیا ہے۔
مبصرین کے مطابق بشریٰ بی بی شاید یہ سوچ رہی ہوں کہ بریلوی ان کے بیان کو سچ مان لیں گے اور بڑی تعداد میں عمران کی حمایت میں باہر نکل آئیں گے، لیکن سچ یہنہے کہ اس طرح کے بیانات کا عالمی سطح پر کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بشری بی بی کے اس بیان نے طالبان اور عسکریت پسند عناصر کو تو ضرور خوش کیا ہو گا لیکن اس سے پاکستانی عوام کی اکثریت ناراض ہوئی ہے۔