جنرل فیض کے انتقامی جذبے نے انہیں کورٹ مارشل تک کیسے پہنچایا؟

سینئیر صحافی روف کلاسرا کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے عمران خان کے بہت قریب آچکے تھے۔ وہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے قبل ہی جہانگیر ترین کے کرائے پر لیے گئے ایک خفیہ گھر میں عمران خان سے چالیس ملاقاتیں تک کر چکے تھے۔ نواز شریف کے وزیراعظم ہاؤس میں آخری دنوں میں عمران خان اور جنرل فیض کی خفیہ ملاقاتیں تواتر سے ہونے لگی تھیں۔ جنرل فیض ڈی جی سی ہوتے ہوئے عمران خان کی آنکھوں کا تارا بن چکے تھے۔ روف کلاسرا کے مطابق ان چالیس سے زائد خفیہ ملاقاتوں میں ہونے والے راز و نیاز نے ہی عمران خان کے لیے وزارتِ عظمیٰ کا راستہ کھولا۔ جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع ملی لیکن اس سارے کھیل کا مرکزی کردار فیض حمید تھے جنہوں نے یہ سب کچھ ممکن کر دکھایا تھا‘ انہیں کیا ملا؟ ان کے ساتھ دھوکا ہوا۔ روف کلاسرا کے بقول اس ڈیل کے تین کرداروں میں سے جنرل باجوہ اور عمران خان تو اپنا حصہ لے چکے تھے لیکن جنرل فیض کے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔ اُدھر عمران خان کو بھی لگا کہ جنرل باجوہ نے ان کے ساتھ بھی ہاتھ کیا ہے اور شریفوں اور زرداریوں کے ساتھ مل گئے ہیں۔ جنرل فیض آخری دنوں میں آرمی چیف جنرل باجوہ کا اعتماد کھو بیٹھے۔ جس کے بعد جنرل باجوہ نے جنرل فیض کے آرمی چیف بننے کا خواب چکنا چور کر دیا۔ یوں جنرل فیض اور عمران خان جنرل باجوہ کے خلاف ہو گئے اور یوں ایک نیا خطرناک کھیل شروع ہوا اور جنرل فیض حمید نے ریٹائرمنٹ کے بعد خاموش زندگی گزارنے کے بجائے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جس کے نتائج اب انھیں بھگتنا پڑ رہے ہیں

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں روف کلاسرا کا مزید کہنا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ نے سب کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی اتنے بڑے مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چند ریٹائرڈ افسران اکثر نجی محفلوں میں یہ کہتے تھے کہ اس لیول پر کبھی کارروائی نہیں ہوگی کیونکہ اس سے ایک نئی روایت قائم ہو جائے گی اور آنے والے برسوں میں پھر ہر دوسرے فوجی افسر کا کورٹ مارشل ہونا شروع ہو جائے گا۔ لیکن لگتا ہے کہ موجودہ عسکری قیادت اس دباؤ کا شکار نہیں ہوئی کہ کل کلاں کو اس روایت کا سہارا لے کر کارروائیاں ہوں گی۔

تاہم روف کلاسرا کے مطابق سوال یہ ہے کہ فیض حمید اُس ریڈ لائن کو کیسے کراس کر گئے جس کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ اس سے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ شاید فیض حمید کو یہ لگتا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے، لہٰذا وہ بدلے کے چکر میں بہت دور تک نکل گئے۔

روف کلاسرا کا مزید کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید سمجھتے تھے انھیں دھوکہ دیا گیا اور ان کے ساتھ جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنرل فیض حمید سے وعدے کس نے کیے تھے اور وہ کون سے ایسے وعدے تھے جو پورے نہ ہونے کی صورت میں جنرل فیض نے اپنی جان بھی داؤ پر لگا دی تھی؟ روف کلاسرا بتاتے ہیں کہ جنرل باجوہ دراصل جنرل کیانی سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کے قریب بھی رہے۔ جنرل باجوہ نے پہلے دن سے سوچ رکھا تھا کہ وہ تین سال بعد گھر نہیں جائیں گے۔ ان کے ذہن میں کچھ منصوبے تھے جو وہ تین سال میں پورے نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں ان کاموں کے لیے چھ سال درکار تھے لیکن انہیں بہت جلد یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف انہیں مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں دیں گے کیونکہ نواز شریف نے کسی بھی جنرل کو مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں دی تھی۔ یہیں سے جنرل باجوہ کے ذہن میں عمران خان کا نام اُبھرا۔ اس سارے منصوبے میں جنرل (ر) فیض حمید کا کلیدی کردار بن رہا تھا جن کا جنرل باجوہ سے پرانا خاندانی تعلق تھا۔ یوں عمران خان کو وزیراعظم بنوا کر جنرل باجوہ نے 2019ء میں خان سے مدتِ ملازمت میں توسیع لینے کا منصوبہ بنایا۔ ساتھ ہی جنرل باجوہ کی نومبر 2022ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد فیض حمید کو نیا آرمی چیف بنانے کا منصوبہ بھی تیار کر لیا گیا۔ روف کلاسرا کے مطابق اس منصوبے میں فیض حمید کو ڈی جی سی سے پروموٹ کرکے ڈی جی آئی ایس آئی لگانا بھی شامل تھا۔ اگست 2018ء میں عمران خان وزیراعظم اور جون 2019ء میں فیض حمید ڈی جی آئی آیس آئی بنے تو جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع مل گئی۔

سینئیر صحافی کا مزید کہنا ہے کہ اب اس پوری ڈیل میں دیکھا جائے تو سب سے بڑا جھٹکا فیض حمید کو لگا کہ جب ان کے آرمی چیف بننے کا وقت آیا تو اس سے پہلے جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم عمران خان کو ہٹانے پر تل گئے۔ جنرل باجوہ پر دباؤ تھا کہ وزیراعظم عمران خان تو ابھی سے فیض حمید کو آرمی چیف بنائے بیٹھے ہیں۔ دیگر سینئر افسران جو نومبر 2022ء میں آرمی چیف کی تعیناتی کی فہرست میں شامل تھے‘ وہ بھی اس بات پر اَپ سیٹ تھے کہ ان کے لیے Level playing field نہیں تھا۔ جنرل (ر)فیض حمید کیونکہ وزیراعظم عمران خان کو روز ملتے تھے اور ان کے سیاسی مخالفوں کو فکس کرنے کا کام کررہے تھے لہٰذا وزیراعظم سمجھتے تھے کہ وہ بہترین جنرل ہیں۔ باقی جرنیلوں سے ان کا براہِ راست رابطہ نہ تھا‘ یوں وہ ان کی خوبیوں سے واقف نہ تھے۔ ہر ڈی جی آئی آیس آئی وزیراعظم کے قریب ہو جاتا ہے کیونکہ عہدے کی وجہ سے اسے وزیراعظم کو براہِ راست بہت سارے معاملات پر رپورٹ کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعظم ڈی جی آئی سے اکثر سیاسی ایشوز بھی حل کراتا ہے۔

روف کلاسرا کے مطابق جنرل (ر) فیض حمید نے عمران خان کے کہنے پر سیاسی مخالفین اور میڈیا اینکرز اور مالکان تک‘ سب کو فکس کر دیا تھا۔ اُس وقت اگر ٹویٹر پر عمران خان کے خلاف کوئی ٹویٹ ہوتا تھا تو بھی فیض حمید کی ٹیم کو کہا جاتا کہ وہ فون کرکے ٹویٹ ڈیلیٹ کرائیں۔ وزیراعظم آفس میں عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم یہ کام کراتی تھی۔ سکرین شاٹس بھیجے جاتے تھے‘ دھمکی آمیز فون کیے جاتے تھے۔ اگر کچھ صحافی آگے سے مزاحمت کرتے تھے تو ان کے مالکان کو کہا جاتا تھا کہ وہ اسے کہیں کہ ٹویٹ ڈیلیٹ کرے یا خود کو نوکری سے فارغ سمجھے۔

جنرل فیض حمید کے ریٹائرمنٹ کے بعد کے جرائم کی داستان

روف کلاسرا کے مطابق فیض حمید نے جو چسکا عمران خان کو لگا دیا تھا اس کے بعد وہ کسی اور کو چیف بنانے کا سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ فیض حمید ان لوگوں میں سے تھے جو ہمیشہ ‘یس باس‘ کہتے ہیں۔ جنرل فیض سمجھتے تھے کہ باس کے منہ سے جو بھی لفظ نکلے‘ فوراً اس پر عمل کرنا ہے۔ باس کو انکار نہیں کرنا‘ نہ ہی اسے قانون قاعدہ سمجھانے کے چکر میں پڑنا ہے۔ بس کام کر کے اس کی رپورٹ دینی ہے۔ روف کلاسرا کے بقول ایسے افسران سیاسی حکمرانوں کو بہت اچھے لگتے ہیں جو ایک فون پر کام کرکے انہیں رپورٹ کریں‘ بہانے نہ تلاش کریں۔ اس لیے فیض حمید نے خوب ترقی کی اور اپنے باس کے قریب رہے۔ ان کا اعتماد حاصل کیا اور جب بھی ان کے باس کو موقع ملا انہوں نے اِنہیں نئے عہدے پر ترقی دی۔ فیض حمید ڈی جی سی سے ڈی جی بنے اور پھر انہوں نے آرمی چیف لگنا تھا۔ لیکن جنرل فیض حمید کے ساتھ ٹریجڈی ہوئی کیونکہ آخری دنوں میں وہ زرداری اپنے باس جنرل باجوہ کا اعتماد کھو بیٹھے اور آرمی چیف نہ بن سکے۔

Back to top button