جنرل ضیاء نے مولوی مشتاق سے ملکر بھٹو کو سزا کیسے دلوائی ؟

عدالت عظمیٰ نے بھٹو ریفرنس پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل نہیں ملا، بھٹو کے خلاف لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کارروائی آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق آرٹیکل-4 109 اے کے مطابق نہیں تھی تاہم عدالت نے بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلہ کو کالعدم نہیں کیا کہ بینچ کے مطابق آئین وقانون میں ایسا کوئی مکینزم موجود نہیں۔جنرل ضیا الحق نے پانچ جولائی 1977 کو مارشل لا نافذ کیا اور دو ماہ بعد گیارہ ستمبر 1977کو استغاثہ یعنی سرکار کی جانب سے لاہور میں مجسٹریٹ کے روبرو بھٹو کے خلاف اسی ایف آئی آر کا نامکمل چالان پیش کیا گیا جس میں الزام عائد تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے نواب احمد خان کو قتل کرایا۔ مجسٹریٹ نے چالان سیشن عدالت بھیج دیا۔ اسی دن ریاست نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ اس مقدمے کو ہائی پروفائل ہونے کے ناتے ہائی کورٹ منتقل کیا جائے۔قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق حسین نے فوری مقدمہ کو ٹرائل کے لیے لاہور ہائی کورٹ منتقل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ مولوی مشتاق حسین لاہور کورٹ کے سینئر جج تھے، مشہور ہے کہ وہ قابل اور محنتی جج ہونے کے ساتھ سخت گیر اور کینہ پرور ہونے کی شہرت رکھتے تھے۔ جنرل ضیا نے مارشل لا لگایا تو جلد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ عدلیہ کی جانب سے سپورٹ بہت ضروری ہے۔ جنرل ضیا کو بتایا گیا کہ اگر بھٹو کو سبق سکھانا ہے تو مولوی مشتاق حسین ہی سب سے موزوں آدمی ہوگا۔ مولوی مشتاق تب کچھ عرصے کے لیے بیرون ملک گئے ہوئے تھے۔ انہیں واپس بلا کر پہلے چیف الیکشن کمشنر اور پھر قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ لگایا گیا۔ وہ قائم مقام گورنر پنجاب بھی تھے۔جنرل ضیا ہر حال میں بھٹو سے نجات چاہتے تھے کہ بھٹو صاحب کی سیاسی طاقت تب بھی غیر معمولی اور ناقابل شکست تھی، ضیا نے بھانپ لیا تھا کہ پی این اے کی مدد سے بھٹو کو سیاسی شکست نہیں دی جا سکتی۔ اس دوران لاہور ہائی کورٹ کے ایک دلیر اور نڈر جج جسٹس کے ایم صمدانی نے 13 ستمبر 1977کو بھٹو صاحب کی ضمانت لے لی تھی۔یہ ملٹری حکومت کے لیے بڑا دھچکا تھا۔ بھٹو کو ایک مارشل لا فرمان کے ذریعے پھر سے گرفتار کیا گیا اور پھر مولوی مشتاق کی مدد سے ایک پانچ رکنی بینچ کے ذریعے بھٹو کی ضمانت مسترد کرائی گئی ۔ قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے بھٹو ٹرائل کے لیے پانچ رکنی بینچ کا انتخاب بڑی احتیاط سے کیا اور جسٹس صمدانی کو اس سے باہر رکھا۔ علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال تب ہائی کورٹ کے جسٹس تھے، انہوں نے بھی خود کو الگ رکھا۔لاہور ہائی کورٹ کا بینچ پانچ ججوں مولوی مشتاق، زکی الدین پال، ایم ایس ایچ قریشی، آفتاب حسین اور گلباز خان پر مشتمل تھا۔ممتاز قانون دان حامد خان نے اپنی کتاب ’پاکستان کی آئینی وسیاسی تاریخ‘میں لکھا ہے کہ ’مولوی مشتاق نے دانستہ یہ جج منتخب کیے تھے، کیونکہ جسٹس آفتاب حسین مولوی مشتاق کا منظور نظر تھا اور ان کے مطابق ہی چلتا تھا، جبکہ ذکی الدین پال مسلم لیگی ہونے کے ناتے بھٹو کے شدید مخالف تھے جبکہ دوسرے دو جج صاحبان اختلافی فیصلہ نہ لکھنے کی وجہ سے مشہور تھے۔بھٹو کیس کا ایک بڑا گھٹیا اور شرمناک حصہ وعدہ معاف گواہ کا کردار اور ایف ایس ایف کے ملزمان کے اعترافی بیانات ہیں، انہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا۔یاد رہے بھٹو صاحب کے دور میں فیڈرل سکیورٹی فورسز (FSF)کے نام سے ایک وفاقی فورس بنائی گئی تھی، مسعود محمود نامی ایک پولیس اور انٹیلی جنس افسر اس کا سربراہ تھا۔بھٹو کیس کو سپریم کورٹ کے نو کے نو ججوں یعنی فل کورٹ نے سننا شروع کیا۔ سپریم کورٹ میں کیس بہت طویل ہوا اور کئی مہینے چلا۔ اس میں پیپلزپارٹی کی حکمت عملی بھی کارفرما تھی کیونکہ وہ عالمی سطح پر دباﺅ ڈلوانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ دو جج صاحبان بینچ سے الگ ہوگئے۔ جسٹس قیصر خان جو بڑے دبنگ اور دیانت دار جج تھے، وہ ریٹائر ہوگئے۔ ان کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ شائد بھٹو کو بری کر دیتے۔ اسی طرح جسٹس وحیدالدین احمد (والد جسٹس وجیہہ الدین ) بیمار ہو گئے۔انہوں نے چیف جسٹس انوار الحق سے درخواست کی کہ چار سے چھ ہفتوں تک سماعت ملتوی کی جائے۔ چیف جسٹس نے اس کے بجائے سماعت جاری رکھی اور یوں سات رکنی بنچ نے کیس سنا۔ایک سال کی طوالت کے بعد چھ فروری 1979کو سپریم کورٹ نے چار تین کی اکثریت سے بھٹو صاحب اور باقی چاروں ملزمان کی درخواستوں کو مسترد کر دیا اور یوں ان پانچوں کو سزائے موت کی سزا فائنل ہوگئی۔سپریم کورٹ کے چار ججوں چیف جسٹس انوارالحق، جسٹس محمد اکرم، جسٹس کرم الٰہی چوہان اور جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے بھٹو اور دیگر ملزمات کو سزائے موت کو برقرار رکھا۔ سوا آٹھ سو صفحات پر مبنی فیصلہ چیف جسٹس انوار الحق نے لکھا۔ پانچوں ملزموں نے نظرثانی کی اپیل دائر کر دی۔ ساتوں ججوں نے سماعت کی اور پھر اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔ اب صرف صدر ہی معافی دے سکتا تھا۔ جنرل ضیا الحق، جو صدر بن چکے تھے، کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ذوالفقار علی بھٹو نے ساتھیوں اور وکلا کے کہنے کے باوجود جنرل ضیا سے معافی کی اپیل مانگنے سے انکار کر دیا، چار دن بعدایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ڈسٹرکٹ جیل پنڈی میں پھانسی دے دی گئی۔ 24 جولائی 79 کو اس کیس کے باقی چاروں ملزموں کو بھی پھانسی دے دی گئی۔پاکستانی رائٹسٹ روایتی طور پر اینٹی پیپلزپارٹی تھے۔ بھٹو دور میں ان میں سے کئی سینئر صحافی اور لکھاریوں کو جیل بھی جانا پڑا۔ جماعت اسلامی اور دینی جماعتوں کے لوگوں نے بھی بڑی مشکلات برداشت کیں۔ اسی وجہ سے یہ سب بھٹو کی پھانسی کے زبردست حامی تھے۔ کئی عشروں تک یہ دفاع بھی کرتے رہے۔