عمران خان نے جعلی ٹرسٹ کے ذریعے قیمتی زمین اور رقم کیسے بٹوری؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ 190 ملین پاؤنڈز کیس کے عدالتی فیصلے نے عمران خان کے صادق اور امین ہونے کا ڈھکوسلہ بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ فیصلے میں عدالت نے ’’القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ‘‘ کو جعلی ٹرسٹ قرار دیا ہے جو کہ عمران خان نے 190 ملین پاونڈز یعنی 50 ارب پاکستانی روپوں کے عوض ملک ریاض سے بطور ککی بیک قیمتی زمین اور رقوم بٹورنے کی خاطر چھتری کے طور پر قائم کیا تھا۔

سینیٹر عرفان صدیقی روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں بتاتے ہیں کہ انہوں نے ’القادرٹرسٹ‘ کے حوالے سے تحقیق وجستجو کی تو نہ صرف بانی پی ٹی آئی کی ’’صاف چلی شفاف چلی‘‘ رام کہانی تار تار ہو گئی بلکہ موصوف کے سر پر سجی ’’صادق و امین‘‘ کی دستار بیچ چوراہے کھل گئی۔ انکا کہنا ہے کہ عدالتیں اپنی جگہ، ہمارا نظامِ انصاف اپنی جگہ، سیاست اپنی جگہ، نفرتیں اور محبتیں اپنی جگہ، تعصّب میں لت پت تجزیے اپنی جگہ، لیکن اٹل اور دوٹوک حقیقت یہ ہے کہ 190 ملین پائونڈز کیس ہماری 78 سالہ تاریخ میں کرپشن کی سب سے بڑی واردات ہے جس نے وزیراعظم ہائوس میں جنم لیا اور ایک صادق اور امین کی قیادت میں بدعنوان رفقا کی معاونت سے پروان چڑھی۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ 2018 میں جب برطانیہ کی’ نیشنل کرائم ایجنسی ‘نے بحریہ ٹائون کے کچھ مشکوک کھاتوں پر کام شروع کیا تو وزیراعظم عمران خان کے رفیق خاص اور اثاثہ جات بازیابی یونٹ کے سربراہ شہزاداکبر کی رال ٹپکی اور اُنہیں ایک بڑے شکار کی بُو آئی۔ انہوں نے وزیراعظم کو اعتماد میں لیکر لندن کے دورے کئے اور ملک ریاض سے ملاقاتیں کی جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ مفاہمت کی ایک یادداشت یا ایم او یو مرتب ہو گئی۔ یوں ایک صادق اور امین وزیر اعظم کے طفیل ’’صداقت اور امانت‘‘ کا بابِ فضیلت کھل گیا۔

ملک صاحب کو 190 ملین پائونڈز دینے کی پختہ ضمانت کے بعد خان کی جانب سے جوابی "کک بیک” کی وصولی کا عمل شروع ہو گیا۔

سینٹر عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ وفاقی کابینہ سے لفافہ بند منظوری سے مہینوں قبل، اپریل 2019 میں ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال زمین، عمران خان کے رفیق خاص ذُلفی بخاری کے نام کر دی گئی۔ اس زمین کی کاغذی قیمت 6 کروڑ 60 لاکھ، 50 ہزار بتائی گئی۔ اگلے ہی ماہ، 5 مئی 2020 کو عمران نے، اس زمین پر القادر یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ صوفی ازم کی تبلیغ وترویج کے لئے اسے غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے منسوب کر دیاگیا۔ اُس وقت تک القادر ٹرسٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ زمین پر قبضہ مستحکم کرنے کے کم وبیش سات ماہ بعد دنیا کی پارلیمانی تاریخ کا عجیب وغریب وقوعہ رونما ہوا جب وزیراعظم اور شہزاد اکبر کے اصرار پر کابینہ نے ایک لفافہ بند ایجنڈے کی منظوری دے دی۔ یوں کرپشن کی اُس مفاہمتی یادداشت کو قانونی جامہ پہنا دیاگیا جو مہینوں قبل طے پاچکی تھی اور جس پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکا تھا۔

کک بیک یس ’’زرِ رشوت‘‘ کے ایک بڑے حصے کی وصولی اور ’’قانونی تقاضے‘‘ پورے کرنے کے بعد 26 دسمبر 2019 کو، سب رجسٹرار آفس اسلام آباد میں بطور القادر یونیورسٹی ٹرسٹ‘ رجسٹر کرا دیا گیا۔ عمران خان، بُشری خان، ذلفی بخاری اور بابر اعوان ٹرسٹی قرار دیے گئے۔ عمران خان نے ٹرسٹ کے چیئرمین کے طور پر صرف پچاس ہزار روپے کا عطیہ دیا جبکہ بحریہ ٹائون نے 28 کروڑ 50 لاکھ روپے کا نقد عطیہ ٹرسٹ کے کھاتے میں جمع کروا دیا۔ اس سوال کا بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل رہا کہ جب زمین پنجاب میں تھی، یونیورسٹی پنجاب میں بن رہی تھی تو ٹرسٹ اسلام آباد میں کیوں رجسٹر کرایا گیا؟‘‘ تاہم جب اس کک بیک پر ٹرسٹ کی سبز چھتری تن گئی اور کاروبار چل نکلا تو چار ماہ بعد، یعنی 25 اپریل 2020 کو عمران خان نے ٹرسٹ ڈیڈ میں ترمیم کرتے ہوئے ذلفی بخاری اور بابر اعوان کو ٹرسٹیز کی فہرست سے نکال دیا۔ یوں القادر ٹرسٹ اب میاں بیوی کے حُجلۂِ عروسی کی زینت بن گیا۔ ایک اور ترمیم کے ذریعے عمران خان نے اپنے اختیارات میں وسعت کیلئے خود کو ٹرسٹ کا اکیلا بانی بھی قرار دے دیا۔

عرفان صدیقی کے بقول اس دوران زرِ رشوت کی بَرکھا برستی رہی۔ جولائی 2020 میں علی ریاض ملک نے بنی گالہ اسلام آباد میں واقع 240 کنال 6 مرلہ زمین، بشریٰ بی بی کی معتمدِ خاص، فرحت شہزادی عرف فرح گوگی کے نام منتقل کر دی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ القادر ٹرسٹ کے ہوتے ہوئے، یہ انتہائی مہنگی زمین ٹرسٹ کو عطیہ کرنے کے بجائے فرحت شہزادی کو کیوں دے دی گئی؟26 اگست 2020 کو ایک اور واردات یہ ہوئی کہ یکایک سنہ 1882 کے ٹرسٹ ایکٹ کو اسلام آباد کی حد تک منسوخ کرتے ہوئے، ’’اسلام آباد ٹرسٹ ایکٹ 2020‘‘ جاری کر دیا گیا۔ نئے قانون کی شق 113 میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں رجسٹرڈ ٹرسٹ، چھ ماہ کے اندر اندر خود کو نئے قانون کے تحت رجسٹر کرالیں ورنہ اُن کی رجسٹریشن معطل ہوجائیگی اور وہ غیرفعال ٹھہریں گے۔ اب جگر تھام کر، پُراسراریت میں لپٹی اس واردات پر نگاہ ڈالئے کہ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو اس نئے قانون کے تحت جان بوجھ کر رجسٹر نہیں کرایا گیا۔ چنانچہ معطل اور غیر فعال ہوجانے کے بعد القادر ٹرسٹ عملی طورپر تحلیل ہوگیا لیکن گُلشن کا کاروبار بدستور چلتا رہا۔

جنید اکبر نے پارٹی صدارت سے گنڈاپور کی چھٹی کیسے کروائی؟

عرفان صدیقی اس داستان ہوشربا کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ القادر ٹرسٹ غیرفعال ہو جانے کے سات ماہ بعد، 24 مارچ 2021 کو بنی گالہ وزیراعظم ہائوس میں بحریہ ٹائون اور بشریٰ بی بی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جسکے تحت القادر یونیورسٹی اور ہاسٹلز کی تعمیر، فرنیچر اور کمپیوٹرز سمیت تمام سازوسامان کی فراہمی حتیٰ کہ اخراجات جاریہ کی ذمہ داری بھی بحریہ ٹائون کے ذمے ٹھہری۔ اس معاہدے کا اطلاق مارچ 2019 سے کیا گیا تاکہ ماضی کی ترسیلات کو بھی چھتری مل جائے۔ یاد رہے کہ اس معاہدے کے وقت القادر ٹرسٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت چلی گئی۔ 2023ءکے اوائل میں نیب نے 190 ملین پائونڈز اور القادر ٹرسٹ کے معاملات کا جائزہ لینا شروع کیا تو بنی گالہ ہائوس میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ فوری طورپر ٹرسٹ کو ازسرِ نو رجسٹر کرانے کیلئے 3 مارچ 2023ء کو ’لیبر اینڈ ٹرسٹیز ڈائریکٹوریٹ‘ اور 6 اپریل کو ’اسلام آباد چیرٹی ایکٹ‘ کے تحت رجسٹریشن کی درخواستیں دائر کی گئیں لیکن نیب کی منفی رپورٹ کے باعث رجسٹریشن نہ ہو سکی۔ اب یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہے۔ کیا عجب کرپشن کی غضب کہانی ہے! 26 دسمبر 2019 کو اپنی رجسٹریشن سے لیکر 26 اگست 2020 کو اپنے غیر فعال ہونے تک، القادر یونیورسٹی ٹرسٹ، صرف آٹھ ماہ فعال رہا جبکہ کک بیکس کی وصولی کا عمل اپریل 2019 سے شروع ہوا اور برسوں جاری رہا۔

القادر یونیورسٹی کی تعمیر پر 28 کروڑ چالیس لاکھ روپے جبکہ فرنیچر اور دیگر سازوسامان پر  اب تک51 لاکھ 49 ہزار روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اسکے علاوہ کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپس کی خریداری پر ساڑھے چھ لاکھ روپے لاگت آئی۔ یہ سب کچھ بحریہ ٹائون کے خوانِ نعمت سے آیا۔ زمین، تعمیرات اور ٹرسٹ کے کھاتے میں پڑی رقوم سمیت تمام اثاثے اس وقت عمران اور بُشری بی بی کے ذاتی تصرف میں ہیں، کیونکہ القادر یونیورسٹی نامی ٹرسٹ کو معطل اور غیرفعال  ہوئے ساڑھے چار سال ہو چکے ہیں۔ عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ خان کی کرپشن کی یہ داستانِ ندامت سننے کے بعد آپکو پی۔ٹی۔آئی والوں کے اس معصومانہ سوال کا جواب یقینا مل چکا ہو گا کہ 190 ملین پائونڈز یعنی 50 ارب پاکستانی روپے تو بحریہ ٹاؤن کو ملے، لیکن بیچارے عمران خان کو کیا ملا؟ اُسے تو ایک پیسے کا فائدہ نہیں ہوا؟ یقینا اسے پیسوں کا نہیں بلکہ اربوں کا فائدہ ہوا ہے۔۔۔

Back to top button