عمران کی فوج میں بغاوت کروانے کی سازش کیسے ناکام ہوئی؟

9 مئی 2023 کے روز عمران خان اور فیض حمید نے مل جل کر جو سازش تیار کی تھی اس کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں سے فوج میں موجود ’پرو-عمران‘ افسران کے جذبات جاگ جائیں گے اور وہ ’خان مخالف‘ جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت کر کے حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔ یوں عمران خان کو ایک بار پھر حکومت سونپ دی جائے گی۔ تاہم یہ منصوبہ ناکام ہوا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ فوج ایک ڈسپلنڈ ادارہ ہے جس میں چین آف کمانڈ کا اصول چلتا ہے لہٰذا اس میں بغاوت کرنا ممکن نہیں۔

معروف صحافی اور تجزیہ کار ندیم فاروق پراچہ انگلش روزنامہ ڈان میں اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں لکھتے ہیں کہ سیاسی علوم میں ایک دلچسپ اصطلاح ہے جسے خود ساختہ بغاوت کہا جاتا ہے۔ خودساختہ بغاوت وہ ہوتی ہے جو ایک منتخب صدر یا وزیراعظم غیرآئینی یا ماورائے آئینی طریقوں سے اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھے یا اسے وسعت دے اور اپنے حامیوں کو سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کرنے کے لیے اُکسائے۔ وہ عوامی رہنما جو خود ساختہ بغاوت کرتے ہیں، انہیں سول سوسائٹی اور ریاستی اداروں دونوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور وہ اسی حمایت کا استعمال کرتے ہوئے بغاوت کرتے ہیں۔ وہ اپنے سپورٹرز کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں جیسے وہ ان میں ایسے خیالات کو پروان چڑھاتے ہیں جس کے تحت وہ اپنے حامیوں کو ریاستی اداروں اور حکومت کے دشمن بنا دیتے ہیں۔

خودساختہ بغاوت کی سب سے بڑی مثال 6 جنوری 2021ء کو کپیٹل ہل کی عمارت پر ٹرمپ کے حامیوں کی چڑھائی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر 2020 کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد وہ اقتدار سے محروم ہوگئے تھے۔ نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن کے حلف اٹھانے کے محض چند روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو اکسایا کہ وہ انتخابات کے نتائج کو مسترد کردیں۔ ان کی تقریر کے بعد سیکڑوں حامیوں نے کپیٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بول دیا۔ ٹرمپ کو امید تھی کہ انہیں دائیں بازو کے عوامی حلقوں کے علاوہ ملٹری اور عدلیہ سے بھی کسی حد تک حمایت مل جائے گی۔ پیون برلن کے مطابق خودساختہ بغاوت اگر مسلح افواج کی حمایت حاصل نہ کرپائے تو یہ کامیاب نہیں ہو سکتی۔

ٹرمپ کے سیکڑوں حامیوں بالخصوص دائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں نے کپیٹل عمارت جو امریکی جمہوریت کی اہم علامت ہے، حملہ کرکے ریاستی اداروں سے اپنی دشمنی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن امریکی افواج نے کسی بھی حمایت سے انکار کر دیا۔ درحقیقت امریکن ملٹری نے نیشنل گارڈ کی تعیناتی کا حکم دیا۔ تاہم یہ ایک ایسا اقدام تھا جس سے مختلف خیالات نے جنم لیا کیونکہ گارڈ تعینات کرنے کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا تھا کہ ٹرمپ کی حمایت کے لیے ایسا کیا جارہا ہے کیونکہ بہت سے مطالعات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکی ملٹری میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات کا نیٹ ورک انتہائی مضبوط ہے۔ لیکن ان قیاس آرائیوں کے برخلاف ایسا کچھ نہیں ہوا۔

ندیم ایف پراچہ بتاتے ہیں کہ 1850 سے 2021 تک دنیا کے مختلف ممالک میں کم از کم 22 خودساختہ بغاوت کامیاب ہو پائی ہیں۔ ان سب میں تب کا سربراہ مملکت مسلح افواج کی حمایت سمیٹنے میں کامیاب ہوگیا تھا اور بہت سے معاملات میں انہیں عدلیہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ لیکن ناکام خودساختہ بغاوت کی مثالیں بھی کم نہیں ہیں۔ سب سے تازہ ترین مثال جنوبی کوریا کے سابق صدر یون سوک یول کی مارشل لا لگانے کی کوشش ہے۔ اس سے پہلے 5 دسمبر 2024 کو عمران خان کو ایک عدالت نے عوام کو ’ملٹری کے خلاف تشدد پر اکسانے‘ کا الزام عائد کیا۔ ان پر یہ الزام تھا کہ 2023 میں انہوں نے بدنامِ زمانہ 9 مئی واقعات کی صورت میں ایسا کیا جہاں ان کے حامیوں نے متعدد فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔

ندیم ایف پراچہ کہتے ہیں کہ 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملوں کا موازنہ کیپیٹل ہل پر حملوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ان حملوں کے بعد فوج کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ عمران خان نے دراصل ریٹائرڈ فوجیوں اور حاضر سروس ججوں کے ساتھ مل کر فوج میں بغاوت کی ایک سازش تیار کی تھی جس کا بنیادی مقصد جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت کر کے حکومت کا تختہ الٹنے اور عمران کو دوبارہ اقتدار دلوانا تھا۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا اسے خودساختہ بغاوت کی ایک مثال سمجھا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب ہاں ہے اور نہیں بھی۔ سب سے پہلے عمران خان اپریل 2022ء میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجانے پر برطرف ہوگئے تھے۔ جب 9 مئی ہوا تب وہ برسراقتدار نہیں تھے۔ تو اس اعتبار سے انہیں خودساختہ بغاوت کا مرتکب نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ برسراقتدار حکومت یا ریاست کے سربراہان خود ساختہ بغاوت کرتے ہوئے مسلح افواج کی حمایت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ اسی لیے وہ کبھی ملٹری کو ناراض نہیں کرتے یا اس پر حملہ نہیں کرتے۔

تاہم ندیم ایف پراچہ کے مطابق 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں برطرفی کے بعد عمران خان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا فوج سے اختلاف یہ نہیں تھا کہ وہ سیاست میں مداخلت کیوں کرتی ہے۔ عمران خان تو آج بھی فوج کی سیاست میں مداخلت کے مخالف نہیں، وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف کو ایک اقتدار سے نکال کر انہیں حکومت دلوا دے۔ عمران خان کا موجودہ فوجی قیادت سے اختلاف صرف اتنا ہے کہ اس نے تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانے میں اپوزیشن کی مدد کی۔

ندیم ایف پراچہ کہتے ہیں کہ اس کے باوجود خودساختہ بغاوت کے دیگر پہلو بھی ہیں جو کہ 9 مئی کے واقعے میں نظر آئے۔ اگرچہ خان برسراقتدار نہیں تھے لیکن وہ اقتدار میں واپسی کے لیے ملٹری سے آس لگائے ہوئے تھے۔ اپنی برطرفی کے بعد وہ جس طرح اسٹیبلشمنٹ پر پھٹ پڑے تھے، اسے دیکھتے ہوئے یہ عجیب لگ سکتا ہے لیکن عمران خان متعدد مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ زیادہ تر ملٹری ان کی طرف ہے۔ لہازا انہیں یہ یقین ضرور تھا کہ فوج میں بڑی تعداد ان کی حامی ہے۔ پراجیکٹ عمران خان میں مرکزی کردار ادا کرنے والے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ پہلے ہی اعتراف کر چکے ہیں کہ ملٹری میں ایک بڑا دھڑا عمران خان کی حمایت کرتا ہے۔

واشنگٹن کے نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹجی تھنک ٹینک کی ایک رپورٹ کے مطابق جب 2022ء کے اواخر میں جنرل باجوہ ریٹائر ہوئے تو انہوں نے ایک ایسی فوج پیچھے چھوڑی تھی جو کہ تقسیم ہو چکی تھی، ’ان میں سے بہت سے افسران اب بھی عمران کی حمایت کرتے ہیں‘۔ جنرل قمر باجوہ کے جاننشین جنرل عاصم منیر نے نومبر 2022ء میں اپنی تعیناتی کے بعد پورا ایک سال ادارے میں موجود عمران خان کے حامیوں سے نمٹتے ہوئے گزار دیا۔ عمران خان کو اس دوران عدلیہ کی بھی کسی حد تک حمایت حاصل تھی جس کی بنا پر عدلیہ نے متعدد مواقع پر ان کے سیاسی کریئر کو 9 مئی کے بدنما داغ سے بچایا۔ تاہم عمران خان کا خیال ہے کہ یہ پُرتشدد واقعات خود ملٹری کی سازش تھے۔ وہ اسے ’آپریشن ریڈ فلیگ‘ کہتے ہیں۔

ندیم ایف پراچہ کے مطابق یہ الزامات کہ عمران خان فوج میں بغاوت کو اکسانا چاہتے تھے، محض الزامات ہیں جو ثابت نہیں ہو پائے لیکن سیاسی مبصرین ان الزامات کو حقیقی ماننے لگے ہیں کہ عمران خان فوج میں بغاوت کے خواہاں تھے۔ لہٰذا اگر واقعی عمران خان نے اقتدار میں واپسی کے لیے 9 مئی کا سانحہ کروایا تھا تو یہ خودساختہ بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔

Back to top button