پاکستان سے جنگ کا پنگا لینے والے مودی نے شرمندگی کیسے سمیٹی؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے آپریشن سندور نامی جو جنگ پاکستان پر تھوپی تھی اب اس کا رخ خود مُودی کی طرف مُڑ گیا ہے۔ جوں جوں، مُودی اور اُسکے دروغ گو میڈیا کی کہانیوں کا پول کھُل رہا ہے، توں توں جَنتاَ کا اشتعال بڑھ رہا ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان کے ہاتھوں بھارتی شکست کے بعد وہاں کی سیاسی اور عسکری قیادت میں ایک بڑی خلیج پڑ چکی ہے۔ دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان پر ہیں۔ دونوں راکھ بن جانے والا سیندور، ایک دوسرے پر پھینک رہے ہیں۔ مُودی، بہار کے انتخابات کے پیشِ نظر ڈگر ڈگر ’فتح‘ کی ڈگڈگی بجا رہا ہے اور اس کی اپنی مسلح افواج کے اعلیٰ عہدیدار، پانچ طیارے گرائے جانے کا اعتراف کرتے ہوئے، بھارتی شکست کا نوحہ پڑ ھ رہے ہیں۔
عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ اگر بقول مودی ’آپریشن سیندور‘ جاری ہے تو اَب اِس کا رُخ پاکستان کی طرف نہیں، خود مُودی کی طرف مُڑ گیا ہے اور اُسکے جھوٹوں کا پول کھُل رہا ہے، 11 برس کے اقتدار کے بعد مُودی کے چہرے کے حقیقی خدوخال نمایاں ہو رہے ہیں۔ وہ کھلی شکست سے فتح کشید کرنے کے جتن کر رہا ہے اور اُس کی اپنی فوجی قیادت اُس کے بیانیے کی دھجّیاں اُڑا رہی ہے۔ جنرل انیل چوہان کا یہ انکشاف کوئی عام سی بات نہیں کہ پاکستان کے جوابی حملوں کے بعد دو روز تک بھارتی فضائیہ معطل ومفلوج ہوکر رہ گئی رھی۔ اُدھر کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے حکومت اور مسلح افواج دونوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ بلاشبہ شکست ہمیشہ بانجھ اور لاوارث رہتی ہے لیکن بھارتی فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان شرمناک ہزیمت کی ذمہ داری ایک دوسرے کے سَر تھوپنے کی جنگ وہ ’’معمولِ نو‘‘ ہے جو کسی بھی حادثے کو جنم دے سکتا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ’’آپریشن سیندور‘‘ کی لاش بیچ چوراہے بے گوروکفن پڑی ہے۔ اَب تو اُس سے تعّفن بھی اُٹھنے لگا ہے۔ اسکی کھال ہڈّیاں چھوڑ رہی ہے۔ دوسری جانب مُودی، بہار کے انتخابات جیتنے کے لئے گلی گلی محلّے محلّے جھوٹ کے سرکس سجا رہا ہے۔ آپریشن سیندور کو اپنی فتح قرار دیتے ہوئے جَنتاَ کو گمراہ کر رہا ہے اور اُس کی مسلح افواج کھُلے عام اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے مُودی کی راہ کھوٹی کر رہی ہیں۔
مُودی کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ چار روزہ جنگ کے نتیجے میں ایک نیو نارمل neo normal یا معمول ِنو تو جنم لے چکا ہے۔ دوسرا دعویٰ یہ کہ ’’آپریشن سیندور‘‘ بدستور جاری ہے۔ مُودی کے دونوں دعوے درست مان لئے جائیں تو بھی اُنکے معنی ومفہوم کو زمینی حقائق کی آنکھ سے دیکھنا ہوگا۔ دَرودِیوار پر لکھا سچ یہ ہے کہ اپنی پسند کا وقت، محاذ اور طریقِ جنگ چننے کے باوجود بھارت یہ جنگ ہار گیا بلکہ بُری طرح ہار گیا۔ ساری دنیا نے اس ہار پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں بھرپور تحمل کے ساتھ پاکستان نے خود کو اپنے دفاع تک محدود رکھا اور جب ’’بنیانُ مرصوص‘‘ کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دی گئیں تو صرف تین گھنٹے پینتیس منٹ میں مُودی کا سرِ پُرغرور، رزقِ خاک ہوگیا۔ اُس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حضور جنگ بندی کی عرضی پیش کرتا۔ یہ اور بات کے جنگ بندی ہو جانے کے بعد وہ صدر ٹرمپ کو اس کا کریڈٹ دینے کو تیار نہیں۔
عرفان صدیقی کا کہنا یے کہ فنِّ دروغ گوئی میں کمال مہارت کے باوجود مُودی کے لئے حقائق چھپانا مشکل ہو رہا ہے۔ پاکستان نے جنگ کے پہلے مرحلے میں ہی واضح اعلان کردیا تھا کہ رافیل سمیت بھارت کے پانچ طیارے تباہ کردیے گئے ہیں۔ بھارت نے ایک بار بھی اس دعوے کی واضح تردید نہیں کی البتہ حیلے بہانے سے ’’چُنری‘‘ پہ لگا یہ داغ چھپانے کی کوشش کرتا رہا۔ 9 مئی کو جب بھارتی فضائیہ کے ڈی۔جی۔آپریشنز اے۔کے بھارتی سے طیاروں کی تباہی کے بارے میں سوال کیاگیا تو اُس نے الفاظ چباتے ہوئے کہا ’’نقصانات لڑائی کا حصّہ ہوتے ہیں۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکتا۔ ایسا کرنے سے فریقِ مخالف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘‘ لیکن عالمی میڈیا، آزاد اور غیرجانبدار ذرائع سے پاکستانی دعوے کی تصدیق کرتا رہا۔ پھر مُودی کی جماعت بی جےپی کے سینئر راہنما اور سابق وزیر قانون سبرامینین سوامی نے لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ ’’جنگ میں پاکستان نے بھارت کے پانچ طیارے مار گرائے ہیں۔ مُودی کو چاہیے کہ وہ قوم کو سچائی سے آگاہ کریں۔‘‘
آخری اور حتمی اعتراف، چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان کی طرف سے آیا۔ ’ بُلوم برگ‘ سے انٹرویو کے دوران، نشانہ بننے والے بھارتی طیاروں کی تعداد بتانے سے گریز کرتے ہوئے انیل چوہان نے یہ کہہ کر بھانڈا پھوڑ دیا کہ ’’طیارے گرنا زیادہ اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ طیارے کیوں گرے؟‘‘
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ واہ، کیا بیانیہ ہے مودی سرکار کا؟ اب بات چھ طیاروں کے زمین بوس ہونے تک محدود نہیں رہی۔ اس نے دنیا بھر کے دفاعی اور جنگی حکمت کاروں کے چوپالوں میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ اس سوال کی گونج بڑھتی جا رہی ہے کہ کیا چین نے، سائبر اور مصنوعی ذہانت کے بل پر اپنے طیارے بہتر بنانے اور دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو مفلوج کرنے کے میدان میں مغربی ٹیکنالوجی پر برتری حاصل کرلی ہے؟ اس سوال میں خطے ہی نہیں، پوری دنیا کے نظامِ دفاع وجنگ میں، نئے مضمرات انگڑائی لے رہے ہیں۔
بشری بی بی نے عاصم منیر کو ISI چیف کے عہدے سے کیوں ہٹوایا ؟
مُودی کے ’نیونارمل‘ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اس چار روزہ جنگ میں شدید نوعیت کی عالمی تنہائی کا شکار نظر آیا۔ اُس کے پرانے اتحادیوں یا دوستوں سمیت، کوئی ایک ملک بھی سینہ تان کر اُس کے پہلو بہ پہلو کھڑا دکھائی نہیں دیا۔ دوسری جانب پاکستان کے دوست ڈٹ کر اس کے ساتھ کھڑے رہے۔ عسکری میدان کے بعد سفارتی میدان میں یہ شکست، بھارت میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ جنگ بندی کے بعد مُودی کو نہ پارلیمنٹ کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہے نہ دنیا کو منہ دکھانے کا یارا۔ پاکستانی وزیراعظم شہبازشریف اور آرمی چیف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر ابھی ابھی ایران، ترکیہ، آذربائیجان اور تاجکستان کے دورے سے واپس آئے ہیں۔ وہ جہاں بھی گئے، پاکستان کی فتحِ مبین کا بانکپن میزبانوں کے چہروں پر بھی شفق بکھیرتا نظر آیا۔ اِس ماہ وہ سعودی عرب اور چین کے دوروں پر جا رہے ہیں۔ اس سے قبل نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے چین کا نہایت اہم دورہ کیا جہاں افغانستان کے وزیر خارجہ کو بھی خصوصی دعوت پر بلایا گیا۔ چین کے توسط سے پاک افغان تعلقات میں جمود ٹوٹنے لگا ہے۔
عرفان صدیقی کے مطابق ’معمولِ نو‘ کا تیسرا زاویہ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نپاتُلا اور متوازن روّیہ ہے جو بھارت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ بھارت کو اس جنگ کے دوران امریکی حمایت کا کامل یقین تھا۔ ایسا نہ ہوا۔ ٹرمپ ایک درجن بار بطور فخر اپنے ’’مدبرانہ کردار‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ ’’میں نے دونوں ممالک کے مابین ایٹمی جنگ ٹالی۔‘‘ اس تاثر کی نفی بھی نہیں ہو پا رہی کہ پاکستان کے برق رفتار ردّعمل کے بعد بھارت کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور اس نے امریکہ سے جنگ بندی کی التماس کی تھی۔ بھارت کو یہ بات بھی ہضم نہیں ہو رہی کہ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں مسئلہ کشمیر کے حل کا ذکر کیوں کیا؟ ایسے میں یہ کہنا بے جانا ہوگا کہ پاکستان سے جنگ کا پنگا لے کر مودی نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے ملک کے لیے بھی شرمندگی کے سوا کچھ نہیں سمیٹا۔