بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے عمران خان کا بھرم کیسے توڑا ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری نے کہا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اس برس ریکارڈ ترسیلات زر پاکستان بھجوا کر قائد انقلاب عمران خان کا رہا سہا بھرم بھی اڑا کر رکھ دیا ہے جو باہر رہنے والے پاکستانیوں کو مسلسل ترسیلات زر کے بائیکاٹ کی اپیل کر رہے تھے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریم میں بلال غوری کہتے ہیں کہ قائد انقلاب نے گزشتہ برس دسمبر میں غیر ملکی تارکین وطن سے اپیل کی تھی کہ وہ ترسیلات زر پاکستان نہ بھیجیں کیونکہ انکے زرمبادلہ سے حکومت مضبوط ہو گی۔ یوں تو انکے ہاں عقل کے بجائے عشق اور جنون کی اجارہ داری ہے اور معقولیت کا کوئی کام نہیں مگر بعض لوگوں نے انہیں یہ اپیل واپس لینے پر قائل کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ عملاً ایسا ممکن نہیں، تاہم حقیقی آزادی کے علمبرداروں کا منطق و استدلال سے کیا واسطہ۔ قائد انقلاب نے جنوری 2025ء میں ایک بار پھر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے کہا کہ بائیکاٹ کا سلسلہ جاری رکھیں، یہ حکومت جلد گھٹنے ٹیک دے گی۔ مگر قائد انقلاب کے واضح احکامات کے باوجود غیر ملکی ترسیلات زر کی آمد کا سلسلہ نہ رُکا اور اس میں کمی واقع ہونے کی بجائے بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔

بلال غوری کہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ جب شیخ وقاص اکرم سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ سمندر پار پاکستانیوں سے ترسیلات زر روکنے کی اپیل کا اثر اگلے دو تین ماہ میں نظر آئے گا۔ اب تین ماہ بعد صورتحال یہ ہے کہ مارچ 2025 میں بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے رقوم بھجوانے کے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے مطابق مارچ 2025 کے دوران 4.1 بلین ڈالرز کی ترسیلات زر موصول ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس سے پہلے مئی 2024 میں سب سے زیادہ 3.2 بلین ڈالرز موصول ہوئے تھے۔ یہ صرف ایک ماہ کی بات نہیں ہے، مجموعی طور پر بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی طرف سے بھجوائی جارہی رقوم میں اضافے کا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستانیوں نے 34.1 بلین ڈالرز بھجوائے جبکہ اس سال 38 ارب ڈالرز کی آمد متوقع ہے۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ جب قائد انقلاب نے بائیکاٹ کا اعلان کیا، میں نے تب بھی عرض کیا تھا کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے بعد انسان رفع حاجت کو نہ جائے بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ دراصل طفلان انقلاب انواع و اقسام کے مغالطوں اور مبالغوں کا شکار ہیں۔ ان میں سے ایک ترسیلات زر کا واہمہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شاید سمندر پار پاکستانی یہ رقوم قومی خزانے میں جمع کرواتے ہیں اور اس سے ملک کا نظام چلتا ہے حالانکہ یہ ترسیلات زر اپنے اہلخانہ کو بھجوائی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنے گھر کے اخراجات پورے کر سکیں۔ جنکے بیوی، بچے، بہن، بھائی، ماں، باپ یا دیگر عزیز پاکستان میں ہیں، کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ انہیں پیسے بھجوانا چھوڑ دیں؟جب ضروریات بڑھتی ہیں تو غیر ملکی ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ مارچ 2025 میں ریکارڈ ترسیلات زر کی وجہ بہت واضح ہے، رمضان المبارک اور عید الفطر۔ ان دونوں مواقع پر اپنی حیثیت کے مطابق فراخدلی سے خرچ کرنے کی روایت ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ نیا ریکارڈ قائم ہوا۔

بلال غوری کے مطابق افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے بھی بیرون ملک پاکستانیوں کے کردار کی تعریف کی ہے۔ اوور سیز پاکستانیوں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کو روشنی قرار دیا۔ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ جو لوگ برین ڈرین کا بیانیہ بناتے ہیں وہ جان لیں کہ یہ برین ڈرین نہیں بلکہ برین گین ہے اور بیرون ملک پاکستانی اس کی عمدہ ترین مثال ہیں۔ بلاشبہ آرمی چیف نے اس ضمن میں مثبت پہلو کو اجاگر کیا۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت طویل عرصہ سے اسی سوچ کو لیکر چل رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب بیرون ملک مقیم بھارتی شہری ان کا بہترین اثاثہ بن چکے ہیں۔

بلال غوری کے مطابق قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھجوائی جا رہی غیر ملکی ترسیلات زر کا حجم بمشکل 34 ارب ڈالرز ہے اور حکومت پاکستان نے انہیں نہ صرف دہری شہریت کی سہولت دے رکھی ہے بلکہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کیلئے بہت سے اقدامات کیے ہیں، لیکن بھارت میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ بیرون ملک مقیم بھارتی شہری ہر سال 129 ارب ڈالرز کی خطیر رقوم انڈیا بھجواتے ہیں مگر وہاں کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ انہیں بیرون ملک ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔ پوسٹل بیلٹ یا بھارتی سفارتخانے میں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں۔ جس نے ووٹ کاسٹ کرنا ہے وہ بھارت آئے اور اپنے حلقے میں جا کر ووٹ ڈالے۔ انڈین سٹیزن شپ ایکٹ 1955ء کے تحت دوہری شہریت کی اجازت نہیں۔ جس نے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ یا کسی اور ملک کا پاسپورٹ لینا ہے، اسے بھارتی شہریت ترک کرنا ہو گی۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے نہیں لیے جا سکتے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ رہیں کسی اور ملک میں اور بھارتی سیاست میں بھی حصہ لیں۔ اسی طرح کوئی سرکاری ملازم، کوئی جج، کوئی جرنیل دہری شہریت نہیں رکھ سکتا۔

شہباز شریف عوام دشمن اشرافیہ کے مشوروں پر کیوں چل رہے ہیں؟

ہمارے ہاں 34 ارب ڈالرز کی خاطر سمندر پار پاکستانیوں کے ناز نخرے اُٹھائے جاتے ہیں مگر بھارت میں 129 ارب ڈالرز بھجوانے والے بھارتی شہریوں کو کوئی نہیں پوچھتا، آخر کیوں؟ اسلیے کہ بھارت کے پاس 676 بلین ڈالرز کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ہیں، 129 بلین ڈالرز کی ترسیلات زر میں سے کچھ کم بھی ہو جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ ہمارے ہاں 15 بلین ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ہیں، اس لیے ہمیں بہت فرق پڑتا ہے۔ اسی طرح بھارت کی سالانہ برآمدات کا حجم 820 ارب ڈالرز ہے اس لیے 129 بلین ڈالرز کی ترسیلات زر سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، مگر پاکستان کی برآمدات بمشکل 31 بلین ڈالرز ہیں۔ اگر غیر ملکی ترسیلات زر بھی 34 ارب ڈالرز سے کم ہو جائیں تو ملکی معیشت کی سانسیں پھول سکتی ہیں اس لیے قائد انقلاب جیسے موقع پرست بلیک میل کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف ملکی مصنوعات برآمد کرنے کی طرف توجہ دی جائے اور دوسری طرف ہنر مند پاکستانیوں کو بیرون ملک روزگار دلوایا جائے تاکہ سپہ سالار جس برین گین کی طرف اشارہ کررہے ہیں اس میں اضافہ ہو اور ماضی میں ایسا ہو چکا ہے۔ 2020 میں پاکستان نے 2 لاکھ 24 ہزار افراد کو ملازمتوں کیلئے بیرون ملک بھجوا کر بھارت اور بنگلہ دیش سمیت دیگر ہمسایہ ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

Back to top button