عمران مخالف سیٹ اپ نے قبولیت کے بعد مقبولیت کیسے حاصل کی ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی سیٹ اپ اس لحاظ سے منفرد اور مختلف ہے کہ اس پر پہلے قبولیت کی مہر تو لگی ہوئی تھی مگر مقبولیت کا انگوٹھا ثبت نہیں تھا، اس نظام کے پائوں زمین پر نہیں تھے بلکہ یہ ہوا میں معلق تھا۔ لیکن پاک بھارت جنگ میں انڈیا کی شکست نے اس سیٹ اپ کو مقبولیت سے بھی سرفراز کر دیا ہے، ایسے میں فیصلہ سازوں کو مقبولیت اور قبولیت کے نشے میں مقبور ہو کر غلط فیصلے کرنے سے پرہیز کرنا ہوگا۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر دور کو نازک دور کہا اور سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے نازک دور کی اہمیت ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے، وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارا واقعی ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، کیونکہ مستقبل کی سیاست طے ہونے جا رہی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں تمام بڑے اور غلط فیصلے کمزور حکومتوں نے کئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پہاڑ جیسی تمام بڑی غلطیاں طاقتور اور مقبول حکمرانوں اور بہادر جرنیلوں نے کی ہیں۔ ہم نے حال ہی میں پہلی بار بھارت سے واضح طور پر جنگ جیتی ہے، جس کے بعد حکومت بہت طاقتور ہو گئی ہے، اور فوج مقبول ہوگئی ہے، سنا ہے کہ اگلے چند مہینوں میں مزید معاشی خوشخبریاں ملنے والی ہیں ۔ چین اور افغانستان سے معاملات شاندار لیول تک جانے کی اطلاعات ہیں۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے اپوزیشن فی الوقت کمزور ترین پوزیشن میں ہے، گویا اس وقت فوج اور اس کے سیاسی پارٹنر طاقت اور اقتدار کے نصف النہار پر ہیں اور انہیں بظاہر کوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں۔ یہ ویسا ہی نازک لمحہ ہے، جس میں ماضی میں طاقت کے نشے میں آ کر، غلط سیاسی فیصلے کئے جاتے رہے ہیں۔ اب بھی اندیشہ یہی ہے کہ بھارت کو شکست دینے کے گھمنڈ میں سیاسی حریفوں کو شکست فاش دینے اور راستے کے سب کانٹے چننے کے بعد فیصلہ سازوں میں جو اعتماد اور غرور پیدا ہو گا وہ ان سے غلط فیصلے کروا سکتا ہے۔
انکا کہنا ہے کہ کمزور حکمرانوں سے سیاست اور ریاست کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا مضبوط اور مقبول سیاستدانوں اور جرنیلوں سے پہنچا ہے۔ پاکستان کی تاریخ دیکھ لیں قائد اعظم محمد علی جناح جتنا مقبول، مضبوط اور اصول پسند حکمران نہ آج تک آیا ہے نہ آئے گا، لیکن انہیں مس گائیڈ کر کے دو صوبائی وزرائے اعلیٰ کو رخصت کروا دیا گیا۔ یوں منتخب حکمرانوں کو گھر بھیجنے کی روایت پڑ گئی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے بانیوں میں سے تھے، وہ قائد ملت کہلاتے تھے، مقبول بھی تھے اور مضبوط بھی۔ پارٹی کی صدارت اور وزارت عظمیٰ دونوں کو اپنے پاس رکھ کر انہوں نے ایک غلط روایت ڈالی جس سے آج تک چھٹکارا نہیں مل سکا۔ گورنر جنرل غلام محمد خادم ملت کہلاتے تھے۔ دنیا بھر میں انہیں پاکستان کا مرد آہن کہا جاتا تھا۔ انہوں نے قومی اسمبلی توڑ کر اسمبلیاں تحلیل کرنے کی غلط روایت کا آغاز کیا اور پھر اپنا اثرو رسوخ بروئے کار لاکر جسٹس منیر سے اپنی مرضی کافیصلہ بھی کروا لیا۔ یوں نظریہ ضرورت کی بنیاد پڑی اور اصولوں پر فیصلے مفقود ہو گئے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ فیلڈ مارشل ایوب خان آئے تو قائد اعظم کے قائم کردہ پارلیمانی نظام کا بستر گول کردیا اور اسکی جگہ امریکی صدارتی نظام نافذ کرکے خود ہی صدر بن گئے۔ ان سے پہلے اسکندر مرزا بھی ایک مرد آہن ہوا کرتے تھے جو حکومتیں بناتے اور توڑتے تھے، انہوں نے 1956 کا آئین منسوخ کرکے خود ہی جنرل ایوب کو وزیر اعظم نامزد کیا تھا یعنی خود اپنی اور اپنے بعد آنے والے تمام سیاستدانوں کی قبر کھودی۔ یہ نظام ایک ہفتہ بھی نہ چل سکا اور اسکندر مرزا کو ایوب خان نے ہمیشہ کیلئے برطانیہ جلا وطن کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کا متفقہ آئین دیا، انہوں نے عوام کو جمہوری شعور دیا لیکن ان کا اپوزیشن کے ساتھ سلوک اچھا نہیں تھا۔ بھٹو کا بنایا ہوا آئین توڑ کر مارشل لا نافذ کرنے والے جنرل ضیاء الحق نے تو اپنی طاقت سے ریاست کے نظریاتی، سماجی اور سیاسی تارو پود ہی بکھیر ڈالے۔ ضیا کے بعد آئین توڑنے والا جنرل مشرف اقتدار میں آیا تو ایک آئیڈیل بلدیاتی نظام لے آیا مگر ایک جعلی اور غیر مقبول جماعت کی سرپرستی اسے لے ڈوبی۔ یہ تھی طاقتور حکمرانوں کے خلاف چارج شیٹ کہ کس کس طرح انہوں نے جمہوری سیاست کو آلودہ کیا اور طاقت کے بیجا استعمال سے ملک کو بہتر بنانے کی بجائے اسے خراب کر دیا۔
انڈیا کی اپنے رافیل طیاروں کی تباہی چھپانے کی کوشش ناکام
دوسری طرف کمزور حکمران ہمارا مذاق تو بنتے رہے لیکن انہوں نے ملک کی سیاست کا وہ نقصان نہیں کیا جو طاقتور حکمرانوں نے کیا۔ خواجہ ناظم الدین کو ہم زیادہ کھانے کی وجہ سے ہاضم الدین کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے رہے مگر ڈھاکہ کے نواب خاندان کا یہ فرزند خلوص کا مجموعہ بن کر آج بھی ہمارے لئے مثال ہے۔ محمد علی بوگرہ کو امریکہ سے بلوانے کی وجہ سے انہیں امریکی ایجنٹ کے طعنے ملتے رہے لیکن انہوں نے ہمیشہ عقل اور دلیل سے خارجہ پالیسی بنانے کی بات کی۔ چودھری محمد علی بھی کمزور وزیر اعظم تھے مگر تمام تر کمزوری کے باوجود وہ پاکستان کو 1956 کا پہلا آئین دے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس آئین پر مشرقی پاکستان کے لوگ بھی متفق تھے۔ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان پر جو الزامات لگیں وہ کبھی طاقتور حکمران نہیں تھے، انکے اوپر ہمیشہ فوج اور عدلیہ کی تلواریں لٹکتی رہیں۔ اس لئےکمزور حکمرانوں سے کیا گلہ کیا جائے؟ ہمیں اصل گلہ تو طاقت ور حکمرانوں سے ہے۔ آج حکمران پھر طاقتور ہیں اس لئے یہ ہر طرح سے ایک نازک لمحہ ہے۔ آج کے طاقتور حکمرانوں کو ملک کے ماضی، حال اور مستقبل کو دیکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ ماضی میں مخالفوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا تجربہ کامیاب نہیں ہوا، لہازا اب بھی اسکی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق سچ تو یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کا ماضی کی حکومتوں سے تقابل کرنا بنتا ہی نہیں، لیکن تاریخ کا سبق تو سب کے سیکھنے کیلئے ہوتا ہے۔ موجودہ سیٹ اپ اس لحاظ سے منفرد اور مختلف ہے کہ اس پر پہلے قبولیت کی مہر تو لگی ہوئی تھی مگر مقبولیت کا انگوٹھا ثبت نہیں تھا، گویا یہ سیٹ اپ طاقتور تھا مگر تھا’ ہوا‘ میں، اس کے پائوں زمین پر نہیں تھے۔ لیکن پاک بھارت جنگ نے اس سیٹ اپ کو مقبولیت سے بھی سرفراز کر دیا ہے، یہ سیٹ اپ اب قبولیت اور مقبولیت دونوں کا مرقع ہے، یہ سیٹ اپ بہت ہی طاقتور حیثیت کا حامل ہو چکا ہے، چونکہ ماضی میں طاقتور حکمران ہی غلط فیصلے کرتے رہے ہیں اس لئے یہ نازک مرحلہ ملک کیلئے امتحان کا ہے، لیڈر کی دانش ایسے ہی وقت میں کئے جانے والے فیصلوں پر منحصر ہوتی ہے۔ پاکستان اس وقت سفارتی اور دفاعی لحاظ سے کئی برسوں کے بعد عروج پر ہے مگر یہ عروج چند ماہ رہے گا اور اس کا انحصار حکمرانوں کے ان فیصلوں پر ہوگا جس سے وہ عروج کو تادیر برقرار رکھ سکیں۔ اگر اندرونی استحکام اور معاشی استحکام قائم کرنے میں دیر کی گئی تو وقتی عروج پھر سے مایوسی اور زوال میں تبدیل ہو جائے گا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جنگ میں فتح سے جذبات بدلے ہیں لیکن سیاست نہیں بدلی۔ تاثرات میں تبدیلی آئی ہے تلخ لیکن حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ نفرت کم ضرور ہوئی ہے لیکن محبت میں نہیں بدلی۔ ووٹ بینک پر گہری چپ ضرور طاری ہوئی ہے مگر اس کے خیالات میں تبدیلی نہیں آئی۔ لوگ وقتی طور پر عمران کو بھول کر جنگ میں پاکستان کی فتح پر تالیاں بجا رہے ہیں۔ جب تالیوں کا شور ختم ہو گا، اور تماشائی واپس مڑیں گے تو انہیں پھر سے جیل کا دروازہ اور قیدی نمبر 804 یاد آ جائے گا۔