نئی نہروں کے منصوبے نے سندھ میں PPP کی ساکھ کیسے خراب کی ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ دریاؤں سے نئی نہریں نکال کر ریگستان کو سرسبزوشاداب کرنے کا منصوبہ عوام کو سمجھانا بہت مشکل ہے۔ ہمارے دریائوں میں پانی کی مقدار موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پہلے ہی بتدریج خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے۔ ایسے میں سب سے اہم یہ ہے کہ جو رقبے آباد ہیں ان کی شادابی و زرخیزی برقرار رکھی جائے، نہ کہ ریگستان آباد کرنے کے منصوبے بنا کر ان رقبوں کو بھی بنجر کر دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر پیپلز پارٹی کا موقف بالکل جائز ہے لیکن اس کی ناکامی یہ ہے کہ سندھ کے عوام یہ ماننے کو تیار نہیں کہ نہروں کے منصوبے میں پیپلز پارٹی کی رضامندی شامل نہیں تھی۔

اپنی تازہ تحریر میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ حالیہ بارشوں کے باوجود خریف کی فصل کے لئے ہمیں گزشتہ برس کے مقابلے میں 27 فی صد کم پانی ملنے کی توقع ہے۔ لہٰذا ہماری ضرورت سے کم ہوئے پانی کا رخ نئی زمینیں آباد کرنے کے لیے موڑنا عوام کو ہرگز پسند نہیں آئے گا۔ اسی لیے سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے وہاں کے عام کسانوں کے دل ودماغ میں مدتوں سے موجود اس تعصب کو بھڑکانا شروع کردیا ہے کہ پنجاب دراصل سندھ کا پانی ’’چوری‘‘ کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔ یہ کہانی پھیلاتے ہوئے اس تاثر کو بھی فروغ دیا گیا کہ اپنا اقتدار بچانے کے لئے پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری کی قیادت میں نئی نہروں کے منصوبے کی ’’منظوری‘‘ دے دی ہے، حالانکہ صدر کو ایسے کسی منصوبے کی منظوری دینے کا اختیار ہی نہیں۔ یہ اختیار صرف اور صرف ارسا نامی ادارے کا ہے۔ نئی نہریں بنانے کے منصوبے کی منظوری کا تاثر آصف علی زرداری نے بطور صدر پاکستان پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران بھی سختی سے رد کیا۔ انہوں نے کہا کہ چولستان آباد کرنے کی خاطر سندھ کے پانی سے نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ وفاق کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ بلاول بھٹو زرداری کو اب شہر شہر جاکر اس حوالے سے وضاحتیں کرنا پڑ رہی ہیں۔ چنانچہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے حوالے سے لگنے والے الزامات کے بعد سیاسی اعتبار سے پیپلز پارٹی اپنے نام نہاد ’’قلعہ‘‘ میں سخت دشواری کا سامنا کر رہی ہے۔

نصرت جاوید طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھلے وقتوں میں ایک بڑی جماعت ہوا کرتی تھی جس کا نام پاکستان پیپلز پارٹی تھا۔ میں بچپن سے نوجوانی کی حدود میں داخل ہورہا تھا تو اس کا قیام میرے آبائی شہر لاہور میں ہوا۔ 1967ء کا برس تھا۔ اگرچہ ان دنوں انٹرنیٹ اور سمارٹ فون متعارف نہیں ہوئے تھے۔ لیکن ہماری نسل عالمی حالات پر نگاہ رکھتی تھی اور ہمیں گماں تھا کہ دنیا قومی شناخت مٹاکر کامل مساوات پر مبنی سوشلسٹ نظام قائم کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی ہمارے وطن میں اس نظام کو توانا تر بنانے کے لئے قائم ہوئی ہے۔ یہ ویسے ہی خیالات تھے جو ان دنوں کی نوجوان نسل عمران خان کی تحریک انصاف کے بارے میں محسوس کرتی ہے۔ لیکن جب پیپلز پارٹی حکومت میں آئی تو ہم میں سے اکثر نوجوانوں کی اس سے وابستہ امیدیں خاک میں مل گئیں۔ چنانچہ مجھ جیسے لوگ سرجھکا کر رزق کی تلاش میں ’’صحافی‘‘  بن گئے۔ لیکن اس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے سخت گیر مارشل لاء متعارف کروا دیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو اس کے ہاتھوں پھانسی پر چڑھا دئے گئے تو ان کی بیٹی نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ اس مزاحمت نے ہمیں حوصلہ دیا اور ہم ایک بار پھر اپنے حالات تبدیل کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔

پیپلز پارٹی جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی کمان میں گئی تو ’’چاروں صوبوں کی زنجیر-بے نظیر-بے نظیر ہو گئیں‘‘۔ لیکن ان کی شہادت کے بعد بتدریج یہ جماعت سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی۔ پیپلز پارٹی 2013 سے اب تک دوبارہ وفاقی حکومت نہیں بنا پائی ہے۔ اپریل 2022ء میں عمران کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد پیپلز پارٹی کو وفاقی حکومت میں اہم وزارتیں ملیں لیکن وہ 2024 کے انتخابات میں کسی کام نہ آئیں۔ البتہ 2008 سے پیپلز پارٹی مسلسل سندھ کی صوبائی حکومت تشکیل دیتی چلی آرہی ہے۔ اس کے اندازِ حکومت یا گورننس کے بارے میں سندھ سے دور بیٹھے تبصرہ نگار عموماً منفی تاثر پھیلاتے ہیں۔ لیکن میں نے پیپلز پارٹی کے کئی ناقدین سے یہ رائے تواتر سے سنی ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے کم از کم صحت کے شعبے میں مختلف شہروں اور قصبات میں جدید ترین آلات سے لیس ادارے قائم کئے ہیں۔ عالمی اداروں سے وابستہ کچھ ماہرین سیلاب متاثرین کی بحالی کے منصوبوں کو بھی سراہتے ہیں۔ وہ منصوبے جن کی تعریف ہوتی ہے لیکن نام نہاد مین سٹریم میڈیا کی بدولت عوام کی اکثریت کی نگاہ میں نہیں آتے۔

پنجاب کو سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ کیوں ترک کر دینا چاہیے ؟

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ گزشتہ چند ہفتوں سے پیپلز پارٹی اپنے نام نہاد ’’گڑھ‘‘ یعنی سندھ میں شدید مشکلات کا سامنا کررہی ہے۔ اسکی وجہ چھ نئی نہروں کی تعمیر ہے جن کا ہدف چولستان آباد کرنا بتایا جارہا ہے۔ جب یہ منصوبہ پہلی بار منظر عام پر آیا تو میں نے التجا کی تھی کہ اس منصوبے کو کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ بناکر ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل نہ بنادیا جائے۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک کی مصیبت ’’ٹاپ ڈائون‘‘ ترقی کا ماڈل ہے۔ یہاں فرض کر لیا جاتا ہے کہ کوئی ’’دیدہ ور‘‘ یا ’’دیدہ وروں‘‘ پر مبنی گروہ ہی مستقبل کو تابناک بنانے کا منصوبہ سوچ سکتا ہے اور جاہل عوام انہیں سوچنے کے قابل نہیں۔

Back to top button