امریکہ اور انڈیا کی قربت پاکستان کے لیے کتنی نقصان دہ ہو سکتی ہے؟

جب بھارتی وزیراعظم نریندرمودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کررہے تھے تو یونہی یاد آیا کبھی جنرل پرویز مشرف کیمپ ڈیوڈ میں جارج بش جونیئر کے مہمان خاص ہوا کرتے تھے تو پاکستانی نان نیٹو اتحادی کا خطاب ملنے پر پھولے نہیں سماتے تھے۔ لیکن یہ دوستی محض پروٹوکول تک محدود رہی۔ جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک ہمارے حکمران اسی بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ امریکہ جانے پر کیسی گرمجوشی سے استقبال کیا گیا۔ کبھی دوطرفہ تعلقات کو تجارت بڑھانے کیلئے استعمال نہیں کیا گیا۔
معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سوویت یونین کیخلاف لڑی گئی طویل جنگ ہو یا پھر گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد برپا کی گئی امریکی جنگ، دونوں میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے والا پاکستان اپنی تمام تر خدمات کے باوجود امریکہ سے نہ تو ایف سولہ طیارے لے سکا اور نہ ہی ان کی خریداری کیلئے ادا کردہ ایڈوانس رقم واپس حاصل کر پایا۔ مگر دوسری جانب امریکہ کی طرف سے بھارت کو نہ صرف ایف 35 جنگی طیارے خریدنے کی پیشکش کی جارہی ہے بلکہ دوطرفہ تجارت میں بھی کئی گنا اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ اقوام عالم میں نہ تو دشمنی مستقل ہوتی ہے اور نہ ہی دوستی۔ دائمی اور دیرپا تعلقات محض مشترکہ مفادات کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم محض 7 بلین ڈالرز ہے جبکہ بھارت اور امریکہ کے مابین تجارت کو 500 بلین ڈالر تک لیجانے کا اعلان کیا گیا ہے جو کہ ہرگز غیرحقیقی ہدف نہیں۔ سال 2024 میں بھارت اور امریکہ کے درمیان 130 بلین ڈالرز کی تجارت ہوئی۔ اس ایک سال میں امریکہ کو 45 بلین ڈالرز خسارے کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ امریکہ محض 40 بلین ڈالرز کی اشیا بھارت کو فروخت کر پایا جسکے مقابلے میں بھارت نے 87 بلین ڈالرز کی مصنوعات امریکہ کو برآمد کیں۔ اس تناظر میں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ تو بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے لیکن اگر امریکہ کی بات کریں تو بھارت دوطرفہ تجارت کے اعتبار سے دسویں نمبر پر آتا ہے کیونکہ میکسیکو، کینیڈا اور چین بالترتیب پہلے، دوسرے اورتیسرے نمبر پر ہیں۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی فرمان کے ذریعے چین، میکسیکو اور کینیڈا سے درآمد ہونیوالی اشیاء پر 10 سے25 فیصد ٹیکس نافذ کرنے جارہے ہیں تو اس پالیسی کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہوگا۔ بھارت پہلے ہی امریکہ کو جواہرات، الیکٹریکل مصنوعات اور مشینری، ادویات، نیوکلیئر ری ایکٹرز، منرلز اور دیگر اشیاء فروخت کر رہا ہے۔ جب میکسیکو، چین اور کینیڈا کی مصنوعات بھاری ٹیکس لگ جانے کے باعث امریکی منڈیوں تک نہیں پہنچ پائیں گی، لہازا بھارت اس صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی برآمدات میں اضافہ کریگا جسکے بدلے امریکہ سے جنگی طیارے، آئل اور گیس درآمد کی جائیگی۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان سائنس وٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی گہرے روابط ہیں۔
بلال غوری بتاتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چئیرمین ڈاکٹر نسیم اشرف نے حال ہی میں شائع ہونیوالی اپنی سوانح عمری میں جنرل پرویز مشرف کی جارج بش سے کیمپ ڈیوڈ میں ہونیوالی ملاقات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایسا ہی ایک واقعہ تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ دو گھنٹے کی میٹنگ کے بعد جب جنرل پرویز مشرف اور جارج بش کھڑے ہوئے تو انہوں نے نیپکن پر دو لفظ لکھ کر مشرف کی توجہ دلائی کہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو 11 ستمبر کے حملوں کے بعد جن مشکلات کا سامنا ہے انکا ذکر کریں۔ جنرل پرویز مشرف نے کہا، جناب صدر! میں ایک چھوٹے سے مسئلے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں ۔پاکستانی امریکی کمیونٹی سمجھتی ہے کہ انہیں ٹارگٹ کرکے ہراساں کیا جارہا ہے۔ میری درخواست ہے کہ آپ اس معاملے کی طرف توجہ فرمائیں۔ اچانک جارج بش کا چہرہ سرخ ہوگیا اور وہ بولے لگے، جناب صدر! میرے ملک پر حملہ ہوا ہے۔ ہم ایک اور حملے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ امریکی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے جو ضروری ہوگا وہ ہم کرینگے۔
بقول نسیم اشرف، اسکے بعد گہرا سکوت چھا گیا۔ امریکی وزیر داخلہ کولن پاؤل نے مداخلت کرکے جمود توڑا۔ انہوں نے کہا، ہمیں روزانہ کم از کم دس ممالک کے سفیر یہی شکایت کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے امریکی سپریم کورٹ کے جج جسٹس کو بھی جامہ تلاشی کا سامنا کرنا پڑا۔ خاطر جمع رکھئے، پاکستانی کمیونٹی کو بالخصوص نشانہ نہیں بنایا جارہا۔ یوں یہ معاملہ سلجھ گیا۔
پاکستان کا برا سوچنے والے عمران کی اپنی سیاست زوال کا شکار کیوں ہوئی ؟
بلال غوری کے مطابق امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتوں کا سبب محض تجارتی تعلقات نہیں بلکہ دفاعی اور سٹریٹیجیک حکمت عملی کے تحت امریکہ بھارت کو روس سے دور کر کے چین کے مقابلے میں علاقائی طاقت کے طور پر کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ مگر ہم پاکستانی ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ کس طرف جائیں۔ دونوں ممالک کیساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش میں کچھ ایسی کیفیت ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔ اہم ترین سوال یہ یے کہ اس نئی شیرازہ بندی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ قوم کو زرعی انقلاب کے جو خواب دکھائے گئے تھے، وہ کیا ہوئے؟ عرب ممالک کو زرعی اجناس برآمد کرنے کے جو منصوبے بنائے گئے تھے، انکا کیا ہوا؟ اگر پاکستان میں معاملات یونہی چلتے رہے تو چار سال بعد ہم آئی ایم ایف سے ایک اور بیل آؤٹ پیکیج لینے کیلئے منتیں کر رہے ہونگے۔