6 جنگیں لڑنے والا پاکستان مکمل معاشی تباہی سے کیسے بچا ہوا ہے ؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنے قیام کے بعد سے اب تک  چھ چھوٹی اور بڑی جنگیں لڑ چکا ہے لیکن اسکے باوجود معاشی طور پر مکمل تباہی کا شکار نہیں ہوا، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ایک اور جنگ لڑنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ افسوس یہ ہے کہ اس خطے کے لوگ امن کے خدائی انعام سے بار بار محروم ہوئے ہیں۔ آج کل پھر سے بھارت ہمارے ساتھ جنگ چھیڑنے کے عزائم ظایر کر رہا ہے، ہم کمزور معیشت کے باوجود پچھلے 75 سال میں 6 بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں، ان میں سے چار چھوٹی بڑی جنگیں بھارت کے ساتھ تھیں اور دو بین الاقوامی جنگیں تھیں جو کہ ہمسایہ ملک افغانستان میں لڑی گئی۔ دنیا کی حالیہ تاریخ میں ہمارا ملک شاید وہ واحد ہے جس نے 70 سال میں چھ جنگیں لڑیں ہیں اور ابھی تک مفلوک الحال نہیں ہوا، چنانچہ آج بھی ہم لوگ مائع لگے کپڑے پہنے ریسٹورانٹس پر مزیدار کھانے کھا رہے ہیں، حالانکہ جنگ نامی عفریت دنیا کے کسی ملک کو چھو بھی جائے تو اس کے باشندوں کی کمریں برس ہا برس سیدھی نہیں ہوتیں، سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ہم پاکستانی شاید لوہے کے بنے ہیں کہ اوپر تلے جنگیں لڑنے کے باوجود ہم نہ صرف زندہ ہیں بلکہ حسب معمول دنیا کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جنگ کی کہانی کا آغاز 1947ء میں ہوا جب دو نئے پھول دنیا نامی باغ میں کھلے۔ ایک کنول کا مذہبی پھول اور دوسرا معطر چنبیلی کا سفید پھول۔ کنول کا پھول بڑا تھا، اس کی ذمہ داری بھی بڑی تھی مگر کنول کے بھارتی پھول نے کبھی کیکر کے کانٹے بوئے اور کبھی صاف پانی کو گدلا کیا، اس نے اپنے ہر ہمسایہ پھول میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا۔ چنبیلی کے پاک پھول کے لیے کِھلتے ہی اسکے لیے بقا کا مسئلہ پیدا کر دیا گیا۔ سفید اور پیازی انڈین پھول نے 75 سال کا ہو جانے کے باوجود بڑا پن نہیں دکھایا، اسکی مسلسل کوشش ہے کہ چنبیلی کا سفید پھول مرجھا کر سوکھ جائے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پھول اور کانٹے کی کہانی بہت سادہ ہے، دراصل کنول کا پھول چنبیلی کیلئے خطرہ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اول تو کنول کے پھول کا انداز سوقیانہ، غلط، حاکمانہ اور علاقے کے پولیس مین والا ہے۔ دوسری پاک چنبیلی بھی اپنے آغاز سے ہی اپنے حجم سے بہت بڑے اسلامی اور بین الاقوامی عزائم کی حامل ہے، اگر کنول کا پھول خطے کا واحد چیمپئن بننا چاہتا ہے تو چنبیلی بھی کمزور ہونے کے باوجود کنول کی پتیوں کو سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ چار ظاہری جنگوں کے علاوہ کنول اور چنبیلی کے پھولوں کے مابین ہر وقت ایک خفیہ سفارتی، معاشی اور معاشرتی جنگ بھی جاری رہتی ہے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ دہلی اور پنڈی دونوں جگہ ایک دوسرے کی تباہی کی منصوبہ بندی جاری رہتی ہے۔ کنول کے شاطر پھول نے بلوچستان اور طالبان کے وحشی کانٹوں کو پیسے اور اسلحے سے زہر آلود بنا دیا ہے، چنانچہ چنبیلی بھی اپنی بساط میں جواب دینے سے باز نہیں آتی۔ لہٰذا دنیا کےاس کونے میں ہر وقت یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ چنبیلی اور کنول کے نیوکلئیر پھول  کسی نہ کسی روز جذبات کی رو میں بہہ کر ایک دوسرے کو تباہ کر دیں گے جس کے بعد باغ میں نہ تو کوئی سبزہ بچے گا نہ پھول اور نہ ہی کوئی درخت۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ کنول اور چنبیلی کی رقابت جعفر حال ہی میں ایکسپریس کے سانحے کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 28 سیاحوں کی ہلاکت کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنا بھی ایک سوچی سمجھی سازش ہے تا کہ پاکستان کو دنیا بھر میں گندا کیا جا سکے۔ گدلے پانی کے بھارتی کنول کا اگر یہ خیال ہے کہ چنبیلی کو تنہا کر کے یا دبا کر وہ معاشی ترقی کر لے گا تو یہ اسکی خام خیالی ہے۔ اسی طرح اگر چنبیلی کی پہلی ترجیح اپنی معیشت کو بہتر بنانا ہے تو پھر اسے جنگ سے بچ کر رہنا ہو گا۔ ماہرین معیشت سمجھتے ہیں کہ 1965 کی جنگ سے پہلے چنبیلی معاشی طور پر بھارتی کنول سے بہت مضبوط تھی، لیکن جنرل ایوب خان کے دور میں بھارت کے ساتھ لڑی گئی جنگ نے پاکستانی چنبیلی کی خوشبو کو  گہنا دیا۔

پاک بھارت کشیدگی کے مابین جنگ سے پہلے جنگ کیسےچھڑ گئی؟

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے عزائم جی 10 اور جی 20 میں جانے کے ہیں تو وہ لڑائی سے نہیں بلکہ امن سے پورے ہوں گے، بھارتی کنول کی مذموم خواہش یہی ہو گی کہ چنبیلی معاشی دوڑ میں اس سے آگے نکل کر مضبوط نہ ہو جائے۔ لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی ملک اکیلا امیر اور خوشحال نہیں ہوتا بلکہ ملکوں کا ایک پورا جتھا باہمی معاشی تعاون کے ذریعے تمام ممالک  کو امیر، مضبوط اور خوشحال کرتا ہے۔ یورپی یونین، آسیان اور ایسے کئی دیگر علاقائی تجارتی اتحاد ملکوں کو مضبوط اور خوشحال بنا رہے ہیں۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ دراصل مودی دنیا کے خوشنما باغ میں ایک کانٹا ہے جو راہداریوں میں کانٹے، چاقو، چھریا، خنجر، اور تلواریں بچھائے بیٹھا ہے۔ تاہم سچ یہ ہے کہ اگر اس خطے میں صرف دلی سے لیکر واہگہ تک اور خیبر سے لیکر براستہ افغانستان راہداریاں کھل جائیں، تو یہ خطہ آج بھی لہلہا سکتا ہے، کنول اور چنبیلی سمیت باغ کے تمام پھول اور بھی توانا ہو سکتے ہیں، کانٹے کیکر کے ہوں یا مودی کی ذہنی سوچ کے، وہ دفن کئے بغیر یہ خطہ ترقی نہیں کر سکتا۔

Back to top button