عمران خان کی پارسائی کے جھوٹے دعوے کیسے بے نقاب ہوئے؟

190ملین پاؤنڈز کیس کے فیصلے نے نام نہاد صادق اور امین کہلانے والے عمران خان کی پارسائی اور دیانتداری کا بت پاش پاش کر دیا ہے تاہم ناقدین کے مطابق 190ملین پاؤنڈ کا کیس تو آئس برگ کا وہ سرا ہے جس نے پانی سے باہر سر نکالا، اصل کہانی تو اس سے زیادہ بڑی اور زیادہ خوفناک ہے۔
وی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اصل معاملہ ایک خاص مزاج یا انداز فکر کا ہے، جس کے اینٹ گارے سے ایک شخص وجود میں آیا، جسے دنیا عمران احمد خان نیازی کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے اپنی کتاب میں بہت سے اعترافات اور انکشافات کیے ہیں۔ جس سے ان کی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنے بڑے پارسا ہیں۔ عمران خان نے اپنی کتاب میں ایک واقعہ لکھ رکھا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کی جماعت کے پاس مالی وسائل نہ ہونے کے برابر تھے جب کہ قرضوں کا بوجھ بہت بڑھ چکا تھا۔ سوال یہ تھا کہ اس مشکل سے کیسے نکلا جائے؟ ان کے ساتھی اور مشیر پریشان تھے لیکن ان کے اپنے ذہن میں ایک حیران کن تجویز آئی جس پر عمل درآمد نے ان کی مشکل آسان کر دی۔
یہ واقعہ لندن کا ہے جہاں کرکٹ کا کوئی ٹورنامنٹ ہو رہا تھا جس پر جوئے کے عادی لوگ جوا کھیل رہے تھے۔ ان میں عمران خان کے سابق برادر نسبتی زیک گولڈ اسمتھ بھی شامل تھے۔ زیک نے عمران سے مشورہ کیا کہ انہیں کس ٹیم پر شرط لگانی چاہیے؟ عمران مشورہ دینے کے لیے یہ شرط رکھی کہ اگر وہ جیتی ہوئی رقم میں سے نصف انہیں دے دیں تو انہیں مشورہ دیں گے۔ زیک نے یہ شرط مان لی اور وہ عمران خان کے مشورے سے جوئے میں ہزاروں ڈالر جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح جوا کھیل کر انہوں نے جتنی دولت کمائی، عمران خان اس میں سے نصف کے مالک بن گئے۔ پاکستان تحریک انصاف جوئے کی اسی کمائی سے برگ و بار لا سکی۔
ناقدین کے مطابق ملکی سیاست میں سلائی مشینوں کی کمائی کی مدد سے مغربی ممالک میں جائیدادیں بنانے کا شہرہ ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں بھی یہ سوال پوری شدت کے ساتھ اٹھایا گیا کہ سلائی مشینوں کی آمدنی آخر اتنی زیادہ کیسے ہو جاتی ہے کہ کوئی امریکا برطانیہ میں جائیدادیں بنا لے؟ اس سوال کا جواب کبھی سامنے نہیں آ سکا۔ جواب سامنے آ بھی نہیں سکتا، اس لیے کہ اس کے پس پشت بھی بہت سی ہوشربا داستانیں اور قدرتی آفات کا نشانہ بن کر کسمپرسی کا شکار ہونے والے عوام ہیں، جن کے نام پر میراتھن ٹرانسمیشنز کر کے بھاری رقوم جمع کی گئیں۔ یہ رقوم سیلاب اور زلزلہ متاثرین پر خرچ ہوتی تو نہیں دیکھی گئیں، پھر وہ رقوم کہاں گئیں؟ اس سوال کا جواب سلائی مشینوں کی جادوئی آمدنی میں تلاش کیا جائے تو ہوشربا انکشافات یقینی ہیں۔
جسٹس وجیہہ الدین احمد ہماری عدلیہ ہی نہیں سیاست کے بھی مسٹر کلین ہیں۔ ان کی تعریف دشمن بھی کرتے ہیں۔ عمران خان نے جب شفافیت اور احتساب کے نام پر سیاست کا آغاز کیا تو وہ بھی ان کے متاثرین میں شامل تھے۔ انہیں پارٹی کا چیف الیکشن کمشنر بنا دیا گیا۔ تحریک انصاف کے قیام کے بعد پارٹی عہدے داروں کا پہلا انتخاب ہوا تو بدعنوانی کا بازار گرم ہوگیا۔ دولت مندوں نے دل کھول کر دولت لٹائی اور لوگوں کو خریدا۔ جسٹس وجیہ الدین احمد نے لوٹ مار اور خرید و فروخت کے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ رپورٹ تیار کی۔ کسی سیاسی جماعت کے اندر اس قدر دھاندلی کے ایسے ناقابل تردید ثبوت پہلی بار سامنے آئے تھے۔ اگر کوئی ایمانداری کے ساتھ اپنی جماعت کو صاف اور شفاف بنانا چاہتا تو اس رپورٹ کی قدر کرتا اور رپورٹ تیار کرنے والے صاحبِ ضمیر کو سونے میں تولتا، لیکن پی ٹی آئی کی تاریخ بتاتی ہے کہ عمران خان نے جسٹس وجیہہ الدین احمد کو پارٹی سے نکال باہر کیا اور پارٹی میں بدعنوانی کو فروغ دینے والوں کو اونچے مناصب سے نوازا۔
عمران خان کا دور حکومت بدعنوانی اور کرپشن کے لیے بہت بدنام ہے۔ اس زمانے میں پاکستان کی بدنامی میں بہت اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور کرپشن کا جائزہ لینے والے دیگر عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں اس زمانے میں کرپشن میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ اس زمانے میں کیسی کیسی بدعنوانی ہوئی، اس کی داستانیں عام ہیں۔ پیٹرول اور گیس کے علاوہ طبی معاملات تک۔ اس زمانے میں دواؤں کی قیمتوں سمیت بے شمار اسکینڈل سامنے آئے۔ کرونا کے زمانے میں دواؤں حتیٰ کہ فیس ماسک تک کی بلیک مارکیٹنگ ہوئی۔ اس بدعنوانی کے الزامات براہِ راست ان کے متعلقہ وزیر پر لگے۔ دباؤ اتنا بڑھ گیا کہ عمران خان کو متعلقہ وزیر کو ہٹانا پڑ گیا۔ انہوں نے وزیر کو کابینہ سے نکالا ضرور لیکن پارٹی میں اسے اعلیٰ عہدے سے نواز دیا۔
عمران خان ایمانداری اور شفافیت پر کتنا یقین رکھتے ہیں، اس کا بہترین اندازہ تحریک انصاف کے مالی معاملات سے ہوتا ہے۔ فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کو پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس کیس کی تفصیلات عقل سلیم رکھنے والے کسی بھی ضابطہ پسند انسان کو حیرت میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ یہ محض الزامات نہیں ہیں کہ پی ٹی آئی کو اسرائیل اور بھارت سے فنڈنگ ہوئی، بلکہ اس کے ناقابل تردید دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا پی ٹی آئی کبھی بھی تسلی بخش جواب نہیں دے سکی۔ پارٹی فنڈنگ اور شوکت خانم اسپتال کے لیے ملنے والے عطیات کے غلط استعمال میں خورد برد کے بارے میں سوالات الگ ہیں۔
ٹرمپ نےاقتدارسنبھالنے سے پہلے ہی یوتھیوں کورسوا کیسےکیا؟
ناقدین کے مطابق ان مالی بدعنوانی اورکرپشن کے واقعات اور معاملات سے معلوم ہوتا ہے کہ جائز اور ناجائز اور حلال و حرام کے معاملات کی عمران خان اور پی ٹی آئی کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔عمران خان اور ان کی جماعت اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر جائز اور ناجائز ذریعہ اختیار کرنے پر یقین رکھتی ہے بلکہ کسی جھجھک بغیر اس پر عمل بھی کرتی ہے۔عمران خان اور پی ٹی آئی میں بدعنوان لوگوں کے لیے بہت گنجائش ہے اور وہ اس جماعت میں خوب پھلتے پھولتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق عمران خان اور ان کے پیروکار احتساب اور شفافیت جیسے نعرے صرف اپنے مخالفین کو بدنام کرنے اور انہیں گالی دینے کے لیے لگاتے ہیں۔ حالانکہ عمران خان ایک ایسے منفرد آدمی ہیں جن کے نزدیک بے ایمانی، کرپشن، دھاندلی اور آئین و قانون کو پامال کر کے اپنا مقصد حاصل کرنا باعث اعزاز اور قابل فخر ہے۔