چین انڈیا کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کیسے مدد کر رہا ہے ؟

حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران چین نے پاکستان کو بھرپور انٹیلیجنس مدد فراہم کی ہے جس کے نتیجے میں اس وقت اسلام آباد کا دلی پر پلہ بھاری دکھائی دیتا ہے۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق 6 اور 7 مئی کی رات بھارت کے فضائی حملوں اور پاکستان کی جوابی کارروائی کے دوران چین کو بھارتی فضائیہ کے حوالے سے اہم ترین انٹیلی جنس اکٹھی کرنے کا مواقع ملا۔  ‘رائٹرز’ کے مطابق بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کا تنازع، چین کو بھارت کی دفاعی صلاحیت بارے قیمتی معلومات اکٹھی کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، پاکستان کو فراہم کردہ لڑاکا جہازوں کو نہ صرف بھارت کے خلاف فضائی جنگ میں استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ ان کی فضا میں موجودگی کے دوران بھارتی طیاروں اور اس کی دفاعی تنصیبات کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کی فوجی جدیدکاری اس لیول پر پہنچ چکی ہے کہ وہ اپنی سرحدی تنصیبات اور بحر ہند کے بحری بیڑوں کے ساتھ ساتھ خلا سے بھی بھارتی دفاعی تنصیبات کا جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔سنگاپور کے معروف سیکیورٹی تجزیہ کار الیگزینڈر نیل کا کہنا ہے کہ ’انٹیلی جنس کے نقطہ نظر سے پاک بھارت جنگی صورتحال چین کو بھارت کی جاسوسی کرنے اور انٹیلی جنس معلومات اکٹھا کرنے کا نادر موقع فراہم کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کو سمجھ جانا چاہیے کہ حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستانی ایئر فورس کے ہاتھوں بھارت کے رافیل جہازوں کی تباہی میں بھی چائنہ کا مرکزی کردار ہے۔

بھارت نے سرکاری سطح پر اپنے کسی طیارے کے نقصان کا اعتراف نہیں کیا، لیکن پاکستان کے وزرائے دفاع اور خارجہ نے چائنیز ساختہ جے ایف تھنڈر اور جے ٹین سی لڑاکا طیاروں کے ہاتھوں بھارت کے مہنگے ترین رافیل طیاروں کی تباہی کی تصدیق کی ہے، تاہم ان دونوں نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستان نے بھارتی لڑکا تیارے گرانے کے لیے کون سے جہاز اور میزائل استعمال کیے۔ پاک بھارت جنگ نے چائنہ کو یہ موقع بھی فراہم کیا ہے کہ اسکے تیار کردہ لڑاکا طیارے اور میزائل عملی طور پر میدان جنگ میں ٹیسٹ ہو جائیں۔ یاد رہے کہ انڈیا کے پاکستان کے علاوہ چین سے بھی کشیدہ سرحدی تعلقات ہیں۔ یہ دونوں ہمسایہ ممالک 3 ہزار 800 کلو میٹر طویل ہمالیائی سرحد شئیر کرتے ہیں، جو 1950 کی دہائی سے متنازع ہے۔ 1962 میں انڈیا اور چین اس معاملے پر ایک مختصر جنگ بھی لڑچکے ہیں۔

سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جہاں انڈیا اور پاکستان کو حالیہ جنگ کے دوران اپنی دفاعی صلاحیتیں چیک کرنے کا موقع مل رہا ہے وہیں چین جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے سپیس سے بھارت کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنے میں مصروف ہے۔

لندن میں کام کرنے والے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز کے مطابق چین اس وقت 267 سیٹلائٹس استعمال کر رہا ہے جن میں سے 115 سیٹیلائٹس انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنے اور نگرانی جاسوسی کے مقصد کے لیے وقف ہیں، یہ ایسا چائنیز سیٹیلائٹ نیٹ ورک ہے جو بھارت سمیت اپنے تمام تر علاقائی حریفوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے، امریکا کے بعد اس نیٹ ورک کا دنیا بھر میں دوسرا نمبر ہے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ خلائی اور میزائل ٹریکنگ کی صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی چین کو پہلے نمبر پر قرار دیا جا سکتا ہے۔

پاکستان نے رافیل گرانے کے لیے کونسے جہاز اور میزائل استعمال کیے ؟

تاہم رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق تمام تر کوششوں کے باوجود چین کی وزارت دفاع نے اپنے فوجی سیٹلائٹس کی موجودہ وکیشن بارے سوالات کا جواب نہیں دیا۔پاکستانی ملٹری کی میڈیا ونگ نے بھی چین کی جانب سے پاکستان کو انٹیلیجنس معلومات فراہم کرنے اور سپیس ٹریکنگ کی سہولت ملنے کے حوالے سے سوالات کے جواب نہیں دیے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی ملٹری انٹیلی جنس ٹیمیں بھارت کی جانب سے فضائی دفاع کے استعمال اور کروز اور بیلسٹک میزائلوں کی لانچ کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی خواہش مند ہوں گی۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے براہموس سپرسونک کروز میزائل کی کسی بھی قسم کی تعیناتی دلچسپی کا باعث ہوگی، تاہم ایسا نہیں لگتا کہ اسے حالیہ پاک بھارت جنگ میں استعمال کیا گیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ چین نے سمندر میں بھی انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے لیے نیٹ ورک بچھا رکھا ہے۔ لہذا یہ کہا جائے تو بے جانا ہوگا کہ چین کی نظریں نہ صرف زمین پر ہیں بلکہ آسمان میں بھی ہیں اور سمندر میں بھی۔

Back to top button