عمران خان خود اپنے خلاف مسلسل سازش کیسے کر رہے ہیں ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ عمران خان بھر پور کوشش کر رہے ہیں کہ کہیں وہ جیل سے باہر نہ آ جائیں، اسی لیے اگر کوئی طاقتور ان کی رہائی کے بارے میں سوچتا ہے تو خان صاحب فوراً ” لا حول ولا ” کا ورد شروع کر دیتے ہیں۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ہمارے ایک انتہائی غیر مقبول وزیرِ اعظم کی حکومت کو ختم ہوئے تین برس بیت چکے ہیں، اور لگ بھگ اتنا ہی عرصہ انہیں مقبول ہوئے بھی گزر چکا ہے، دو سال تو اب وہ جیل میں بھی گزار بیٹھے ہیں۔ اس عرصے میں انہوں نے ہر سمت میں رُخ کر کے ’’سیاسی نمازیں‘‘ ادا کی ہیں، کبھی مشرق کبھی مغرب اور کبھی شمال و جنوب، کبھی باجوہ صاحب کو گالی دی، کبھی انہیں توسیع کی دعائیں دیں، کبھی اپنے سینے پر 9 مئی کے ’’کارنامے‘‘ کا تمغہ سجایا، کبھی 9 مئی کو دشمنوں کی سازش قرار دیا، کبھی اسلام آباد پر لشکر کشی کا حکم دیا، کبھی فوج کو تمام مسائل کی جڑ قرار دیا تو کبھی فوج سے مذاکرات کی بھیک مانگی، کبھی سوشل میڈیا پر اپنے حواریوں کی دشنام طرازی کو اپنے احکامات کی بجا آوری قرار دیا، کبھی اسے حکم عدولی ٹھہرایا، کبھی حافظ صاحب کی تعیناتی رکوانے کیلئے جلوس نکالے، کبھی ان سے راہ و رسم استوار کرنے کی خواہش کی، کبھی ہم وطنوں سے توقع باندھی، کبھی انکل سام سے، عمران خان کی اس داستان یو ٹرن کا کوئی انت نہیں ہے۔
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ انسان اپنا سب سے بڑا دشمن خود ہوتا ہے، اجتماعی سطح پر ماحولیات سے نیو کلیئر ہتھیاروں اور نت نئی جنگوں تک اس دماغی کیفیت کی درجنوں مثالیں دی جاتی ہیں۔ فرد کا بھی یہی معاملہ بتایا جاتا ہے، نفسیات دانوں اور فلسفیوں نے تخریبِ ذات کی اس خواہش کو کئی زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کی ہے، کبھی فرد اپنے لیے ایسے اہداف منتخب کر لیتا ہے جو اس کی صلاحیت اور طاقت سے زیادہ ہوتے ہیں، اور کبھی فرد کی ذاتی خواہشات اور معاشرے کی توقعات کا ٹکراؤ ایسے رویوں کو جنم دیتا ہے جو فرد کی ناکامی اور تباہی کا جامع نسخہ ثابت ہوتے ہیں۔ پہلے ہمیں اس بحث میں تیقن حاصل نہیں تھا، ہم عمران خان کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہمیں یہ موقع عطا کیا۔ عمران خان مسلسل، بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں جیل سے رہائی نہ ملے ، اگر کسی طاقت ور شخص کو ان کی رہائی کا خیال بھی آئے تو وہ لا حول ولا کا ورد کرنے لگے، اگر ہمارے کان میں کوئی ’’اندر کی بات‘‘ بتائے کہ صیاد کی دِلی خواہش ہے کہ مرغِ بسمل کو آزاد کر دیا جائے، تو ہم دو جمع دو کریں گے، اور اس اطلاع پر یقین کر لیں گے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ عمران خان نے اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگایا، انہوں نے زمین پر گرنے کے بعد، بے شمشیر و بے سپر ہونے کے بعد اپنے مخالف کو للکارنا شروع کر دیا۔
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں رہا ہونے کا یہ طریقہ نہ کبھی جنگوں میں کام یاب ہوا نہ سیاست میں۔ پچھڑے ہوؤں کی رہائی کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے، سقوطِ غرناطہ کے وقت جنگ ہارے ہوئے بو عبدل سے لے کر نواز شریف تک، ایک ہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور رہائی حاصل کی جاتی ہے، یعنی بدلے کی دھمکیاں نہیں دی جاتیں، کچھ شرائط تسلیم کی جاتی ہیں، کوئی سیاسی راستہ نکالا جاتا ہے۔ پھر حالات بدلنے کا انتظار کیا جاتا ہے، دوبارہ قوت اکٹھی کی جاتی ہے، اور نئی تدبیر اپنائی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ تک خاموش رہنے کی شرط، کچھ عرصہ بعد توڑی بھی جا سکتی ہے، ایک فریق کی کم زوری کی بنیاد پر کیا ہوا معاہدہ توڑ دینے کے حق میں دلائل بھی دیے جا سکتے ہیں، نواز شریف نے بھی حالات سازگار ہوتے ہی سیاست سے دس سال علیحدہ رہنے کا معاہدہ توڑ دیا تھا، اور ان کے حامیوں نے اسے بہترین حکمتِ عملی قرار دیا تھا۔
امریکی کانگریس اراکین کادورہ :یوتھیوں کی مایوسی میں اضافہ کیوں؟
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ عمران خان کی تخریبِ ذات کی خواہش تو عثمان بزدار کی تعیناتی سے ہی عیاں ہو گئی تھی، لیکن جب انہوں نے یکے بعد دیگرے اپنی صوبائی حکومتیں کھلونوں کی طرح توڑنا شروع کیں تو شک گہرا ہونے لگا، اور پھر نو مئی نے تو ہر شک رفع کر دیا۔ بلا شبہ، وہ خود اپنی ذات کی دشمنی میں حد سے آگے نکل چکے ہیں۔ ان کا ایک اور شوق بھی کامن سینس کی توہین محسوس ہوتا ہے، اور وہ ہے چومکھی لڑائی کا شوق۔ ہم سب نے کچی جماعت میں سیکھا تھا کہ اپنے دشمنوں سے ایک ہی وقت میں لڑائی نہیں شروع کر دیا کرتے۔ عمران خان اداروں سے، سیاست دانوں سے، حتیٰ کہ سعودی عرب جیسے طاقت ور ممالک سے بہ یک وقت پنجہ آزمائی کر رہے ہیں جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے ہرجائی صفت اداروں کا ماضی گواہ ہے کہ اگر عمران خان نے متوازن رویہ اختیار کیا ہوتا تو شاید اب تک اُن کی دوبارہ ’’باری‘‘ آ چکی ہوتی۔