ٹی ٹی پی وفاق اور KP حکومتوں کی لڑائی کا فائدہ کیسے اٹھا رہی ہے؟

تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے نومبر 2024 میں 200 سے زائد دہشت گرد حملوں اور 245 لوگوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے سے یہ تاثر مظبوط ہوا ہے کہ وفاقی حکومت اور خیبر پختون خواہ حکومت کے مابین محاذ آرائی ٹی ٹی پی کو اپنی کاروائیاں تیز کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔

اسلام آباد میں کام کرنے والے تھنک ٹینک ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کونفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز‘ کی رپورٹ کے مطابق نومبر کے مہینے میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں اور جھڑپوں میں 245 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 68 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں سو سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں سمیت کم از کم 257 افراد زخمی ہوئے تھے۔ تحریکِ طالبان پاکستان نے نومبر میں 200 سے زائد حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ اس صورتِ حال کو مبصرین پریشان کن قرار دے رہے ہیں۔

سال 2023 میں سامنے آنے والی کتاب ‘دی ریٹرن آف طالبان’ سمیت عسکریت پسندی پر متعدد کتابوں کے مصنف اور واشنگٹن ڈی سی کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ اس وقت ٹی ٹی پی حقیقی معنوں میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے لیے دردِ سر بن چکی ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حسن عباس نے دعویٰ کیا کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو سرحدی علاقوں میں رہنے کی اجازت دی ہے۔ محفوظ پناہ گاہیں ملنے کے باعث وہ پاکستان کے اندر براہِ راست حملے کرتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے تعاقب کرنے پر یہ عسکریت پسند واپس افغانستان فرار ہو جاتے ہیں۔

دوسری جانب افغانستان میں اگست 2021 سے برسرِ اقتدار طالبان حکومت، پاکستان کی جانب سے ٹی ٹی پی کی سرحد پار محفوظ پناہ گاہوں کے الزامات کو مسترد کر رہی یے۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ دوحہ امن معاہدے کے مطابق وہ اپنی سر زمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے رہے۔ اس لیے ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا پاکستان کا الزام درست نہیں ہے۔

اس بارے حسن عباس پاکستان کی موجودہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے انٹیلی جینس میکنزم پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ انکے مطابق ایسا لگتا ہے کہ جو مہارت پاکستان کے خفیہ اداروں کے ایجنٹس کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشنِ ضرب عضب کے دوران حاصل تھی اب اس کی نوعیت برقرار نہیں ہے جس کی وجہ سے آئے روز سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک، الحاق، حکمتِ عملی، افرادی قوت اور جدید اسلحے کے استعمال کو زیادہ اہم نہ جان کر اسے کم تر سمجھا ہے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار داؤد خٹک کہتے ہیں کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان کی منظم فوج استعداد، تربیت، جنگی مہارت، جدید اسلحے اور ڈرونز کے ساتھ فضائی برتری کے باوجود کیسے ٹی ٹی پی کے ہاتھوں مستقل بھاری نقصان اٹھا رہی ہے؟

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے داؤد خٹک کا کہنا تھا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز ان علاقوں میں مقامی لوگوں کا اعتماد کھو رہی ہیں کیوں کہ زیادہ تر شدت پسندوں کا تعلق انہی علاقوں سے ہے جہاں فورسز کے اہلکار نشانہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ مقامی افراد عسکریت پسندوں کے شانہ بشانہ لڑیں۔ ان کے بقول بعض مقامی افراد ٹی ٹی پی کے حوالے سے اگر خفیہ اطلاعات کو سیکیورٹی اداروں سے مخفی رکھتے ہوں۔ ضرورت کے وقت ان کو پناہ یا کھانا فراہم کرتے ہوں تو یہ وہ عوامل ہیں جو عسکریت پسندوں کے حق میں ہیں جب کہ سیکیورٹی فورسز کو ان سے نقصان ہوتا ہے۔

ٹی ٹی پی کی حکمتِ عملی پر بات کرتے ہوئے پروفیسر حسن عباس کہتے ہیں کہ افغانستان سے اتحادی افواج کا انخلا بھی ٹی ٹی پی کی ہمت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ٹی ٹی پی سمجھتی ہے کہ جب افغان طالبان امریکہ سمیت دیگر مغربی افواج کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور کر سکتے ہیں تو اس کے جنگجو پاکستانی فوج کے خلاف بھی اسی انداز میں لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستانی طالبان اسی لیے ہمیشہ نئے نیٹ ورکس بنانے اور آپس کی چپقلش ختم کرکے نئے محاذ کھولنے کی تراکیب سوچتے رہتے ہیں۔

عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافے پر بات کرتے ہوئے صحافی داؤد خٹک کا کہنا تھا کہ اس سے نہ صرف یہ سیکیورٹی فورسز کو جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے۔ بلکہ اہلکاروں کے حوصلے بھی پست ہونے کا خدشہ ہے۔ داؤد خٹک کا دعویٰ تھا کہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی حکمتِ عملی سیکیورٹی اداروں کے حکام کے مقابلے میں بہت آگے دکھائی دیتی ہے۔

دہشت گردوں کے حملوں میں اضافے کو پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس سیاسی انتشار سے جوڑتے ہیں۔ ان کے بقول ٹی ٹی پی نے اپنی جنگ کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے ساتھ عوام میں اپنے خلاف نفرت کو زائل کرنے پر بھی کام کیا ہے جس میں انہیں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی طالبان اب اپنی کارروائیوں میں صرف پولیس، ایف سی اور فوج کے اہلکاروں کو ہی نشانہ بنا رہے ہیں۔ حال ہی میں پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں احتجاج میں مظاہرین کے خلاف حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال پر بھی ٹی ٹی پی نے ایک بیان جاری کیا اور اس کی مذمت کی۔

تحریک انصاف کو دوبارہ عوامی پذیرائی ملنا ناممکن کیوں؟

صحافی داؤد خٹک کے مطابق خیبر پختونخوا اور وفاق کی چپقلش کا بھی ٹی ٹی پی بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ان کے مطابق ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی کھل کر ٹی ٹی پی کے خلاف کھڑی ہوئی تھی۔ ان کا کہنا یے کہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں صوبائی حکومت نے دہشت گردوں سے لڑنے کے بجائے اپنے تحفظ پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ داؤد خٹک کا دعویٰ تھا کہ موجودہ صوبائی حکومت کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کی کھل کر مذمت نہیں کرتی۔ بلکہ اگر کبھی وفاقی حکام قبائلی علاقوں میں آپریشن کی بات کرتے ہیں تو صوبائی حکومت کھل کر اس کی مخالفت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ آنے والے دن دہشت گردی پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ دہشت گردوں کی کارروائیاں مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں۔

Back to top button