عمران اگلی کتنی عیدیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاریں گے ؟

عمران خان کی دوغلی سیاست نے انہیں اتنا ناقابل اعتبار بنا دیا ہے کہ اب ان کے اپنے ساتھی بھی کنفیوژ ہو چکے ہیں کہ انہوں نے اپنی بانی کے کس اعلان کا یقین کرنا ہے اور کس کا نہیں، فوجی اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی ان کا اعتبار کرنے پر تیار نہیں لہذا بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ اگلی کئی عیدیں بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی گزاریں گے۔
سینیئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ اس عید سے پہلے بھی عمران خان کی رہائی کا کوئی امکان نہیں چونکہ فیصلہ سازوں پر ایسا کوئی دباؤ نہیں ہے جس سے نکلنے کے لیے وہ آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمران خان کو رہا کر دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی احتساب بیورو کے علاوہ حکومتی ذرائع نے بھی عمران کی رہائی کی افواہوں کی سختی سے تردید کی ہے۔ حتیٰ کہ پی ٹی آئی کوبھی ایسا ہونے کی توقع نہیں ۔
نیب کے ایک عہدیدار کے مطابق عمران کے خلاف کسی عدالت میں فی الوقت ایسا کوئی کیس نہیں ہے جس میں ان کی فوری رہائی کا امکان بنتا ہو۔ نیب عہدیدار نے تصدیق کی کہ ابھی تک نیب کو ایسا کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا جو عید سے پہلے عمران خان کی ضمانت پر رہائی کا سبب بن سکے۔ انہوں نے کہا کہ قانونی ضابطوں کے تحت کسی سزا یافتہ فرد کو ریلیف دینے سے قبل پراسیکیوشن کو سنا جانا ضروری ہوتا ہے، جو اب تک نہیں ہوا۔
ادھر حکومتی ذرائع نے بھی قیاس آرائیوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عمران خان کو کسی قسم کی ڈیل کی پیشکش نہیں کی گئی، اور ان کی رہائی کے لیے پس پردہ کوئی مفاہمت زیرِ غور نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک سزا یافتہ مجرم ہیں اس لیے انکی رہائی کی ایک ہی صورت ہے کہ بڑی عدالت کی جانب سے انہیں دی گئی سزا چھوٹی عدالت ختم کر دے۔
ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عمران خان سے نہ کوئی مفاہمت ہو رہی ہے، نہ کوئی بات چیت اور نہ ہی انکے لیے کوئی پیشکش موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت تمام بحرانوں سے نکل آئی ہے اور اسے عمران خان کے ساتھ مفاہمت کی کوئی ضرورت نظر نہیں آتی۔ عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے بھی اگلے روز راولپنڈی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ عمران خان کی فوری رہائی کی افواہیں بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو خان صاحب کی کوئی ڈیل ہو رہی ہے اور نہ ہی فیصلہ سازوں کی جانب سے ان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی برتی جا رہی ہے۔
لیکن ان وضاحتوں کے باوجود کچھ پی ٹی آئی رہنما اور میڈیا تجزیہ کار اب بھی امید رکھتے ہیں کہ عمران کو عید سے قبل ضمانت مل سکتی یے۔ ان کی امیدیں 5 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت سے وابستہ ہیں، جہاں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے توشہ خانہ کیس میں اپنی سزا کی معطلی کے لیے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ تاہم نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ تاحال اس معاملے میں بھی کوئی نوٹس جاری نہیں ہوا۔ قانونی ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اس نوعیت کی درخواستوں میں عمومی طور پر طریقہ کار کے مطابق تاخیر ہوتی ہے اور کئی سماعتیں درکار ہوتی ہیں قبل اس کے کہ کوئی حتمی ریلیف دیا جا سکے۔
عمران مخالف سیٹ اپ نے قبولیت کے بعد مقبولیت کیسے حاصل کی ؟
دوسری جانب، موجودہ قانونی صورت حال بھی عمران خان کے لیے کسی فوری ریلیف کی نوید نہیں دیتی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حال ہی میں واضح کر دیا تھا کہ 190 ملین پاونڈز فراڈ کے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کو سنائی جانے والی 14 سالہ سزا کے خلاف اپیل لگنے کا سال 2025 میں کوئی امکان نہیں ہے۔ ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے ڈویژن بینچ کو جمع کروائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ اپیل جنوری 2025 میں دائر کی گئی تھی جو ابھی موشن اسٹیج پر ہے جبکہ کیسز کی سماعت کے لیے مروجہ پالیسی کے تحت پرانے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جاتا ہے لہٰذا عمران خان کے کیس کا نمبر سال 2025 میں لگتا دکھائی نہیں دیتا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزا یافتہ قیدیوں کی 279 اپیلیں زیرِ التواء ہیں جن میں 63 سزائے موت اور 73 عمر قید کی اپیلیں شامل ہیں۔
نیشنل جوڈیشل (پالیسی ساز) کمیٹی کی ہدایت کے تحت پرانے کیسز کو ترجیح دی جا رہی ہے لہٰذا عمران خان کی اپیل موجودہ کیلنڈر سال میں باقاعدہ سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئی۔