جیل میں عمران کیساتھ جنسی زیادتی کی خبر میں کتنا سچ ہے ؟

تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع نے بھارتی میڈیا پر نشر ہونے والی اس خبر کی سختی سے تردید کی ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا اور ایسی من گھڑت خبروں کا بنیادی مقصد بانی پی ٹی آئی کی ساکھ خراب کرنا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز ایک بھارتی ٹی وی چینل پر یہ خبر نشر ہوئی تھی کہ جیل میں عمران خان کے ساتھ زبردستی جنسی زیادتی کی گئی ہے جس کے بعد ان کی حالت کافی خراب ہے۔

تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل میں عمران خان کے ساتھ تمام تر زیادتیوں کے باوجود ایسا کوئی سلوک نہیں کیا گیا جس سے جنسی تشدد قرار دیا جا سکے۔ خیال رہے بھارتی میڈیا نے عمران خان کے ساتھ جنسی زیادتی کا دعوی کرتے ہوئے ماضی میں ان کے ایڈوائزر رہنے والے شہباز گل کے ساتھ بھی قید میں جنسی زیادتی کا حوالہ دیا تھا جس کا انکشاف خود عمران خان نے کیا تھا۔ رہائی کے بعد شہباز گل امریکہ فرار ہو گیا تھا اور اب وہیں سے پی ٹی آئی کا فوج مخالف سوشل میڈیا بریگیڈ چلاتا ہے۔ بھارتی میڈیا نے عمران کے ساتھ جنسی زیادتی کی جھوٹی خبر چلاتے ہوئے ان کا موقف بھی دے دیا تھا جس کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ وہ عوام کی خاطر ہر طرح کی زیادتی برداشت کر رہے ہیں۔

دوسری جانب اڈیالہ جیل کی انتظامیہ نے بھی عمران خان کے ساتھ جنسی زیادتی کی خبر کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے بےہودہ قرار دیا ہے۔ جیل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں قید بامشقت کی سزا بھگتنے والے عمران خان پر ماہانہ 30 لاکھ روپے خرچہ ہو رہا ہے۔ یہ رقم اس تین لاکھ روپے ماہانہ سے علیحدہ ہے جو ہر مہینے عمران خان کے اکاؤنٹ میں کچن آئٹمز کی مد میں ان کے خاندان کی طرف سے جمع کروائی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ جیل میں بانی پی ٹی آئی جیسے تمام صاحب حیثیت قیدیوں کا اپنا اکاؤنٹ ہوتا ہے جس سے کھانے پینے کی اشیا خریدی اور تیار کی جاتی ہیں۔

جیل ذرائع کے مطابق جہاں ایک طرف سابق وزیر اعظم عمران خان کی جیل یاترا حکومت کو لاکھوں روپے ماہانہ میں پڑ رہی ہے وہیں اب دونوں میاں بیوی کے صرف کھانے پینے کے اخراجات ماہانہ 6 لاکھ روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔  دونوں قیدیوں کے اکاؤنٹ میں تین تین لاکھ روپے ماہانہ جمع کروائے جاتے ہیں۔ اڈیالہ جیل کے ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی کا جیل میں ماہانہ خرچ تین لاکھ روپے تک تھا، تاہم بشری بی بی کے بھی جیل آ جانے سے یہ اخراجات اب دوگنے ہو چکے۔ اب پیرومرید کے جیل میں کھانے پینے کے ماہانہ اخراجات 6 لاکھ روپے تک پہنچ چکے ہیں۔

 ذرائع کے مطابق عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی جیل مینول کے مطابق فراہم کیا جانے والا کھانا بالکل پسند نہیں کرتے اس لیے ان کے اور ان کی اہلیہ کے لیے دونوں وقت خصوصی کھانا تیار ہوتا ہے۔ عمران خان ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے کا منیو خود سیٹ کرتے ہیں، بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کا کھانا الگ کچن میں ان کے مشقتی تیار کرتے ہیں۔ عمران ناشتے میں انڈے، فریش جوسز، اور ناریل کھانا پسند کرتے ہیں، وہ دن میں تین مرتبہ کافی پیتے ہیں جبکہ اُن کے دن اور رات کے کھانوں میں دیسی مرغ اور مٹن لازمی شامل ہوتا ہے۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ کے لیے تیار کردہ کھانا پہلے غذائی ماہرین چکھتے اور چیک کرتے ہیں۔

حملہ ہوا تو پاکستان نیوکلیئر آپشن استعمال کرنے میں آزاد کیوں ہو گا؟

جیل ذرائع کےمطابق عمران خان دیسی گھی میں تیار کردہ دیسی مرغ، مٹن، دیسی بٹیر اور سالمن مچھلی شوق سے کھاتے ہیں، بانی پی ٹی آئی ہفتے میں تین مرتبہ کالی مرچ اور ادرک میں بنی ہوئی دیسی مرغ کی یخنی بھی استعمال کرتے ہیں، اس کے علاوہ وہ بکرے کی گردن کی یخنی میں بنا پلاؤ اور آلو گوشت بھی شوق سے کھاتے ہیں۔ جیل ذرائع کا دعوی ہے کہ پہلے عمران خان کے جیل اکاؤنٹ میں مختلف پارٹی لیڈرز پیسے ڈال دیا کرتے تھے لیکن اب سپانسرز کے کنارہ کش ہو جانے کے بعد ان کی بڑی بہن کھانے کے تمام اخراجات برداشت کر رہی ہیں، اڈیالہ جیل میں عمران خان اور بشری بی بی کے اکاونٹس ہیں جن میں رقم ان کی بڑی بہن علیمہ خان جمع کراتی ہیں، اکاونٹ میں پیسے کم ہونے پر انہیں کو آگاہ کردیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ علیمہ خان شوکت خانم ہسپتال سمیت عمران کے ساتھ مختلف بزنس پراجیکٹس میں حصہ دار ہیں۔

جیل ذرائع کے مطابق اڈیالہ جیل میں عمران خان کی ہر خواہش پوری کی جاتی ہے اور ان پر کسی قسم کی کوئی سختی نہیں کی جاتی۔ جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ خان صاحب کو واک کرنے کی سہولت حاصل ہے۔ اسکے علاوہ ورزش کے لیے انہیں ایکسرسائز مشین بھی مہیا کی گئی ہے۔ انہیں بیٹوں سے بات کرنے اور وکیلوں اور رشتہ داروں سے ملنے کی سہولت بھی ہے ۔ اسکے علاوہ انہیں ٹیلی ویژن، چارپائی، میٹرس، کرسی، میز، اخبار، کتابیں، اٹیچڈ باتھ روم، ڈاکٹر، میل نرس اور ایک مشقتی بھی فراہم کیا گیا ہے جو ان کی مٹھی چاپی بھی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے جیل سیل کے باہر دو سکیورٹی گارڈز بھی تعینات ہیں لہذا ان کے ساتھ جنسی زیادتی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

Back to top button