190 ملین پاؤنڈز کیس میں عمران رنگے ہاتھوں کیسے پکڑے گئے؟

معروف تحقیقاتی صحافی فخر درانی نے روزنامہ جنگ کے لیے اپنی رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ اثاثہ ریکوری یونٹ کے سابق سربراہ شہزاد اکبر کے دستخط شدہ ’’معاہدہ رازداری‘‘ کے پوسٹ مارٹم سے پتہ چلتا ہے کہ تب کے وزیر اعظم عمران خان نے سارا عمل خفیہ لیے رکھا کہ اس میں انکا اپنا کردار بے نقاب نہ ہو۔

فخر درانی کے مطابق اس معاہدے میں برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کو بحریہ ٹاؤن کی ضبط شدہ رقم سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرنے کا پابند بنایا گیا تھا حالانکہ یہ رقم حکومت پاکستان کے خزانے میں جانا تھی۔ معاہدے میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ یہ تب تک خفیہ رہے گا جب تک کہ قانوناً اسے افشاء کرنے کی ضرورت نہ پیش آئے۔ اس صورتحال کے تناظر میں بحریہ ٹاؤن کے ساتھ حکومت کے تعاون پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔

فخر درانی کے مطابق جب اس کیس کا تصفیہ ہو رہا تھا، تب بحریہ ٹاؤن اور برطانوی ایجنسی کے درمیان ’’معاہدہ رازداری‘‘ بھی ہوا تھا، جس میں تصفیے کی شرائط کا خاکہ، ضبط شدہ رقم کی وطن واپسی اور غیر منقولہ جائیداد کی فروخت کے متعلق باتیں شامل تھیں۔ حکومتِ پاکستان نے یقین دہانی کرائی کہ وہ معاہدے کی تفصیلات خفیہ رکھے گی اور افشاء نہیں کرے گی۔

یاد رہے کہ شہزاد اکبر کا دعویٰ ہے کہ اس معاملے میں انہوں نے اور عمران حکومت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا لیکن رازداری کے معاہدے کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ عمران حکومت مکمل طور پر اس میں ملوث تھی، حالانکہ وہ معاہدے میں کوئی کردار ہونے کی تردید کرتی رہی ہے۔ رازداری معاہدے کی شق 2.1.1 پر مرزا شہزاد اکبر کے دستخط ہیں جس میں لکھا ہے کہ ڈیڈ اور فریم ورک معاہدہ دونوں کی شرائط خفیہ رہیں گی۔  شق 2.4 میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان فریقین کی رضامندی کے بغیر فریم ورک معاہدے کی کوئی تفصیلات ظاہر نہیں کرے گی۔  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اے آر یو نہ صرف ڈیڈ کا حصہ تھی بلکہ اسے فریم ورک کی تفصیلات بھی معلوم تھیں۔ حالانکہ شہزاد اکبر نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ معاہدہ صرف پراپرٹی ٹائیکون اور این سی اے کے درمیان ہوا ہے اور حکومت نے کوئی مدد نہیں کی۔

معاہدے کی شق 2.4 میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان کسی بھی شخص کو اس ڈیڈ، فریم ورک معاہدے کے بارے میں دیگر فریقین کی پیشگی تحریری اجازت کے بغیر، کوئی معلومات فراہم نہیں کرے گی۔  شق نمبر 2.6 میں لکھا ہے کہ اگر کوئی فریق چاہے تو وہ فریم ورک یا معاہدے کے حوالے سے کسی طرح کی تصیح کرنا چاہے یا درست معلومات فراہم کرنا چاہے تو حکومت پاکستان اسے ایسا کرنے کی اجازت دے گی۔ شق نمبر 2.3.4 حکومت پاکستان کو عدالتی حکم، ریگولیٹری باڈی، یا قانونی معاملات میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے معلومات افشاء کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اسے ایسا کرنے سے پہلے متعلقہ فریقوں کو مطلع کرنے اور ان سے مشورہ کرنا ہوگا۔ معاہدہ رازداری کے علاوہ، عمران خان کی حکومت نے پراپرٹی ٹائیکون کو بار بار بیرون ملک سفر کی اجازت دی۔

کیا حکومت ناپسندیدہ صحافی اور سیاستدان پکڑنے جا رہی ہے؟

فخر درانی کے مطابق مجموعی طور پر پراپرٹی ٹائیکون کو 20؍ مرتبہ باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ 30 مارچ 2022 کو، عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے خان کی حکومت کا تختہ الٹنے سے چند دن پہلے، ٹائیکون کو بیرون ملک سفر کیلئے 8؍ ہفتوں کی اجازت دی گئی۔ عمران حکومت کی ٹائیکون کیلئے مدد کی عکاسی شہزاد اکبر کے ٹائیکون کے ہمراہ برطانیہ کے دوروں سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔

شہزاد اکبر نے اگست 2018ء سے دسمبر 2019ء کے درمیان 10؍ مرتبہ برطانیہ کا دورہ کیا، یہ وہ وقت تھا جب این سی اے ٹائیکون کے اثاثہ جات اور مالی معاملات کی تحقیقات کر رہا تھا۔  کئی مواقع پر شہزاد اکبر اور ٹائیکون ساتھ ساتھ برطانیہ میں تھے۔ یہ صورتحال حکومت کے ملوث ہونے کی عکاسی کرتی ہے۔

Back to top button