جنسی درندے جاوید اقبال کی لاپتہ افراد کمیشن سے چھٹی کیسے ہوئی؟

عمران خان کے دور میں پکے حکومتی ٹٹو کا کردار ادا کرنے والے جنسی بھیڑئیے جسٹس جاوید اقبال کو بالآخر ناقص کارکردگی کی بنیاد پر لاپتہ افراد کمیشن کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اپنے دور اقتدار میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے عملی اقدامات کرنے کی بجائے سر سے پاؤں تک چومنے کے ریکارڈ قائم کرنے والے جسٹس جاوید اقبال کا دعویٰ ہے کہ اگر وہ اس عہدے پر چند مہینے مزید رہ جاتے تو لاپتا افراد کی تعداد صفر رہ جاتی۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ساکھ کے بحران کا شکار جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کردہ کمیشن پچھلے 14 برس میں کوئی کارکردگی دکھانے میں بری طرح ناکام رہا ہے تاہم ناقص کارکردگی اور جنسی ہراسگی کے الزامات کے باوجود جسٹس جاوید اقبال کو مسلسل توسیع دی جاتی رہی ہے تاہم اب شہاز حکومت نے ان کی چھٹی کروا دی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ 2 دہائیوں سے پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ چلا آ رہا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔اس مسئلے کے تدارک کے لیے وفاقی حکومت نے سنہ 2011 میں لاپتا افراد کمیشن قائم کیا جس کے پہلے سربراہ کے طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریٹائرڈ جج، جسٹس جاوید اقبال کو تعینات کیا گیا تھا۔سنہ 2011 سے لے کر اب تک جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ہی اس کمیشن کی سربراہی کرتے رہے۔ اس کمیشن کی سربراہی کے ساتھ ساتھ وہ سال 2017 سے سال 2022 تک چیئرمین نیب بھی رہے اور تنازعات کا شکار بھی رہے۔ تاہم اب وفاقی حکومت نے جسٹس ریٹائرڈ جاویداقبال کو ہٹا کر ان کی جگہ جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کو لاپتا افراد کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔

جنسی درندے کی چھٹی کے حکومتی فیصلے کو جہاں سیاسی و عوامی حلقوں میں سراہا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب اپنی 14 سالہ ناقص ترین کارکردگی پر اظہار شرمندگی کی بجائے جسٹس جاوید اقبال کا دعویٰ ہے کہ ان کی وجہ سے ہزاروں لاپتہ افراد بازیاب ہوئے۔ جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ  جب وہ 2011 میں لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ مقرر ہوئے اس وقت لاپتا افراد کی تعداد 12 ہزار سے زائد تھی اور جب انھیں فارغ کیا گیا تو یہ تعداد کم ہو کر 2200 رہ گئی ہے اگر وہ اس عہدے پر چند مہینے مزید رہ جاتے تو لاپتا افراد کی تعداد صفر رہ جاتی۔تاہم مبصرین کے مطابق لاپتا افراد کمیشن کے اعداد و شمار صرف نظر کا دھوکا ہیں اور جسٹس جاوید اقبال کی جانب سے جن شکایات کو حل شدہ دکھایا جارہا ہے وہ دراصل ازالہ طلب ہی ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ ابھی تک گھر واپس نہیں لوٹ پائے۔

خیال رہے کہ جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال بطور چیئرمین نیب اور بطور چیئرمین لاپتا افراد کمیشن بہت سے تنازعات کا شکار رہے اور نمایاں طور پر ان کے ساتھ جنسی ہراسگی کے 2 واقعات وابستہ ہیں۔اس کے علاوہ بطور چیئرمین نیب ان پر اس دور کی اپوزیشن قیادت پر بے بنیاد مقدمات بنانے کے الزامات بھی لگتے رہے۔

یاد رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اپنے دور اقتدار میں طیبہ گل اور انکے شوہر کو گرفتار کروا دیا تھا اور دونوں پر فراڈ کا ریفرنس دائر کیا تھا جو بعد میں جھوٹا ثابت ہوا اور دونوں میاں بیوی کو رہائی مل گئی۔ اس دوران پہلے جسٹس جاوید اقبال کی طیبہ گل کے ساتھ قابل اعتراض گفتگو کی آڈیو سامنے آئی اور پھر ایک ویڈیو بھی سامنے آگئی جس میں وہ خاتون کے ساتھ نازیبا حرکات کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

واضح رہے گذشتہ برس طیبہ گل اور جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی ایک آڈیو ریکارڈنگ منظرعام پر آئی تھی جس میں سابق نیب چیئرمین کو طیبہ سے نازیبا گفتگو کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ جاوید اقبال طیبہ گل کو کہہ رہے تھے کہ مجھے موقع ملے تو میں تمہیں سر سے پاؤں تک چوموں گا۔ پھر وہ خاتون کو یہ بتاتے سنائی دے رہے تھے کہ میں نے ایک ریسٹ ہاؤس میں باتھ روم تیار کروا لیا ہے جہاں بیڈ کے علاوہ گرم پانی اور تولیے کا بندوبست بھی ہو گیا ہے۔ اس کے بعد جاوید اقبال کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں وہ اپنے دفتر میں طیبہ گل کو گلے لگا رہے تھے۔

منموہن سنگھ کس پاکستانی کے اکنامک وژن پر چل کر کامیاب ہوئے ؟

بعد ازاں سینئر صحافی سلیم صافی کے ساتھ ایک انٹرویو میں طیبہ گل نے انکشاف کیا  تھا کہ یہ آڈیوز اور ویڈیوز انہوں نے سابق وزیر اعظم کے سیکرٹری اعظم خان کے حوالے کی تھیں تا کہ وہ جاوید اقبال کی بلیک میلنگ سے بچ سکیں لیکن وزیر اعظم کے حکم پر جاوید اقبال کو دباؤ میں لانے کے لیے ان آڈیوز اور ویڈیوز کو مارکیٹ کردیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے اعتماد کا خون کیا گیا اور عمران خان نے جسٹس جاوید اقبال کو نیچے لگانے کے لئے میرے فراہم کردہ خفیہ مواد کو استعمال کیا گیا۔ طیبہ گل نے سابق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اور ڈی جی نیب سلیم شہزاد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم اب لگتا ہے کہ جنسی درندے کے حساب کتاب کا وقت آ چکا ہے۔

Back to top button