کیا موجودہ ہائبرڈ سسٹم آف گورننس پاکستان کو راس آ چکا ہے؟

چونکہ قیام پاکستان کے وقت اس مملکت خداداد کو اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا گیا تھا اور تب سے اب تک یہاں کئی طرز حکمرانی آزمائے جا چکے ہیں، لہذا موجودہ ہائبرڈ سسٹم آف گورننس کو بھی پورا موقع دیا جانا چاہیے۔ شاید یہی ماڈل پاکستان کو راس آ جائے ۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار بلال غوری روزنامہ جنگ کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نہایت دلیر سیاستدان ہیں۔ وہ ترنگ میں آکر ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو انکے ہم عصر رہنما سوچ بھی نہیں سکتے۔ کچھ روز پہلے انہوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ پاکستان میں مثالی جمہوریت موجود نہیں ہے، موجودہ نظام "ہائبرڈ سسٹم آف گورننس‘‘ کہلاتا ہے اور یہ ماڈل کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس بیان پر انہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
ایک طرف تو تحریک انصاف کے رہنمائوں نے اسے جمہوریت کی توہین قرار دیا تو دوسری طرف انکی اپنی جماعت کے بعض ارکان پارلیمنٹ بھی ناراض ہوئے کیونکہ ہمارے ہاں حقیقت کا سامنا کرنے کاچلن نہیں۔ ہم لوگ تخیلاتی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ تاہم آگ کو کاغذ سے نہیں ڈھانپا جا سکتا۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ پاکستان میں مثالی جمہوریت تو کبھی نہیں رہی البتہ 2018 سے مکمل طور پر ہائبرڈ ماڈل چل رہا ہے جس کی ابتدا الیکشن 2024 کے بعد ’’نئے پاکستان ‘‘سے ہوئی۔ ہمیں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں چونکہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے اس حوالے سے بیانات اور انٹرویوز ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ویسے بھی ’’RTS‘‘کے ذریعے برسراقتدار آنے والوں کے منہ سے فارم 47 کی باتیں اچھی نہیں لگتیں ۔جو خود سلیکٹڈ تھے وہ کسی پر ’’اردلی‘ ہونے ‘کی پھبتی کسیں تو یہ بذات خود سنگین مذاق ہے۔ موجودہ ارباب اقتدار کو کم ازکم یہ کریڈٹ تو دیں کہ وہ جمہوریت کی ملمع کاری اور ’’ریاست مدینہ‘‘کی شعبدہ بازی نہیں کرتے بلکہ کھلے دل سے اعتراف کررہے ہیں کہ یہ ’’ہائبرڈ ماڈل‘‘ ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ ہائبرڈ نظام ہوتا کیا ہے۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بلال غوری کہتے ہیں کہ آپ نے ہائبرڈ گاڑیوں کے بارے میں تو سنا ہو گا۔ پاکستان میں اب ایسی گاڑیاں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ہائیبرڈ کار چلنے کے لیے مختلف اقسام کی توانائی کو بروئے کار لاتی ہے۔ اس میں بطور ایندھن پیٹرول یا ڈیزل تو استعمال ہوتا ہی ہے مگر اس میں ایک الیکٹرک موٹر بھی لگی ہوتی ہے۔ جب آپ گاڑی سٹارٹ کرتے ہیں تو وہ ایک مخصوص رفتار تک بیٹری پر چلتی ہے مگر جب آپ رفتار بڑھاتے ہیں تو انجن اور الیکٹرک موٹر ملکر کر کام کرنا شروع کر دیتے ہیں، یوں ہائبرڈ کاروں میں استعمال ہونے والے ایندھن کی بچت ہوتی ہے اور کم خرچ میں آپ زیادہ سفر کرسکتے ہیں۔
اگر لغت کی بات کریں تو حیاتیاتی اعتبار سے ہائبرڈ بدذات اور دو نسلی مخلوق کو بھی کہتے ہیں۔ مگر اس کیلئے دوغلی نسل کا لفظ زیادہ موزوں سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب گھوڑے اور گدھے کا ملاپ ہوتا ہے تو خچر وجود میں آتا ہے۔ اسکے علاوہ بھی دوغلی نسل کے کئی جانور موجود ہیں۔کاشت کاری کی بات کریں تو محکمہ زراعت چاول، گندم، مکئی اور سبزیوں سمیت کئی زرعی اجناس کے ہائبرڈ بیچ متعارف کروا چکا ہے جنکی نہ صرف پیداوار معمول سے بڑھ کر ہوتی ہے بلکہ فصل تباہ کرنے والے کیڑوں کے مقابلے میں انکی قوت مزاحمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ لہذا بلال غوری کہتے ہیں کہ ہائبرڈ کی اصطلاح ہرگز نئی نہیں ہے۔ جب عمران خان کے ’’نئے پاکستان‘‘میں ’’ففتھ جنریشن ہائبرڈ وار فیئر‘‘ کا تصور متعارف کروایا گیا تھا تو اس کا ترجمہ پانچویں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ کیا گیا۔
بلال غوری کے بقول سیاسی مفکرین کے مطابق ہائبرڈ نظام اس ملی جلی سرکار کو کہتے ہیں جس میں اختیارات بظاہر تو منتخب سول حکومت کے پاس ہوتے ہیں مگر زمینی حقائق کے پیش نظر انہیں طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ استعمال کرتی ہے تاکہ قانونی پیچیدگیوں اور آئینی موشگافیوں کی خاردار جھاڑیوں سے بچ کر درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔ اس ہائبرڈ ماڈل کے پیش نظر یہ منطق ہوتی ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک کا ترقی یافتہ مہذب ممالک کے جمہوری نظام سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ہمارے مسائل اور وسائل مختلف ہیں لہٰذا جو اصول وہاں متعین کیے جاتے ہیں ان کا اطلاق یہاں کر کے منزل کا حصول ممکن نہیں۔ پھر غربت، تنگ دستی اور بیروزگاری اور مہنگائی کا شکار عوام کو اس سے کیا غرض کہ وطن عزیز میں کونسا نظام اور ماڈل رائج ہے، وہ تو بس یہی چاہتے ہیں کہ حالات بہتر ہوں ۔صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی میسر ہوں۔
پٹرول اور ڈیزل مہنگا کرنے پر نون لیگ کے حمایتی حکومت کیخلاف
بلال غوری کہتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک میں ہائبرڈ نظام حکومت متعارف کروایا گیا۔ مثال کے طور پر ایران، میکسیکو، ہنگری، نائجیریا، تنزانیہ، روس اور وینزویلا کے نظام حکومت کو کسی حد تک ہائبرڈ سسٹم کہا جاسکتا ہے۔ ان سب ممالک میں طاقت کے ایک سے زائد مراکز ہیں۔ اگر ہم اپنے ہمسایہ ممالک کی بات کریں تو بنگلہ دیش میں کسی حد تک یہ ہائبرڈ نظام نافذ رہا اور آج بھی کام کر رہا ہے ،اسی تناظر میں گاہے گاہے بنگلہ دیش ماڈل کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے۔ پاکستان میں ہائبرڈ سسٹم آف گورننس کی باتیں پہلے بھی کی جاتی رہی ہیں۔بالخصوص جنرل ضیاالحق کی موت کے بعد جب جمہوریت بحال ہوئی تو شراکت اقتدار کے کئی فارمولے پیش کیے گئے ۔نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام کی تجویز جس پر آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے لیا گیا ،وہ بھی ہائبرڈ نظام کی ہی ایک شکل تھی۔
جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر عنان اقتدار پر قبضہ کیا تو سب سے پہلے قومی سلامتی کونسل تشکیل دی مگر اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور بات نیشنل سکیورٹی کونسل سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ماضی میں سیاسی رہنما اس شراکت داری کی شدید مخالفت کرتے ہوئے سویلین بالادستی کی جدوجہد کرتے رہے اورمسلم لیگ (ن)کے قائد نواز شریف نے تیسری بار وزیراعظم آفس سے نکالے جانے پر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘کا بیانیہ بنایا۔ لیکن اب انکے قریبی ساتھی خواجہ آصف کا خیال ہے کہ جب تک پاکستان معیشت اور طرز حکمرانی کے بحران سے نہیں نکل جاتا، ہائبرڈ نظام ہماری عملی ضرورت ہے ۔خواجہ آصف نے یہ بھی فرمایا کہ اگر 1990ء کی دہائی میں ایسا ماڈل اپنایا جاتا توحالات بہت بہتر ہوتے۔خواجہ آصف نے جو فرمایا سب قوم کا سرمایا چونکہ پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا گیا تھا اور آزادی کے بعد اب تک یہاں کئی طرز حکمرانی متعارف کروائے جا چکے ہیں، ایسے میں ایک ماڈل اور سہی۔ دیکھتے ہیں کہ یہ ہائبرڈ سسٹم آف گورننس کیا رنگ لاتا ہے۔