گنڈاپور وزیراعلیٰ نہ ہوتا تو PTI کب کی فارغ کیوں ہو چکی ہوتی؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ اگر عمران خان کے پاس وزیر اعلی کی صورت میں علی امین گنڈاپور نہ ہوتا تو انکی جماعت اب تک خیبر پختونخواہ پی سے بھی فارغ ہو چکی ہوتی، وہاں فارورڈ بلاک بن چکا ہوتا یا پھر گورنر راج لگ چکا ہوتا اور پی ٹی آئی پنجاب کیطرح کے پی میں بھی منہ چھپاتی پھر رہی ہوتی۔ انکا کہنا ہے کہ گنڈا پور پی ٹی آئی کا واحد لیڈر ہے جو کہ عملی طور پر عمران خان کی پارٹی بچانے میں ان کا ساتھ دے رہا ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں اس سب کے باوجود علی امین گنڈا پور ہی اپنی جماعت میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔ وہ پی ٹی آئی کا ساتھ دے رہا ہے‘ اس نے خان کے لیے پانچ بڑے مظاہرے کیے‘ اسے جب بھی کہا گیا یہ جیسے تیسے گرتا پڑتا بیس تیس ہزار لوگوں کو اسلام آباد اور لاہور لے کر پہنچا‘ اس کے لیے اس نے مالی نقصان بھی اٹھایا‘ اس نے ایم پی ایز کی جھڑکیاں بھی سنیں‘ بیوروکریسی سے پنگا بھی لیا‘ اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی بھی سہی اور آخر میں پولیس کے ڈنڈے اور آنسو گیس بھی برداشت کی۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ گنڈاپور نے ورکرز کے لیے وکیلوں کا بندوبست بھی کیا‘ لواحقین کے گھر راشن اور پیسے بھی بھجوائے اور جیلوں میں ان کی مدد بھی کی اور اس سب کے بعد اسنے جم کر پوری پارٹی اور عمران خان سے بے عزتی بھی کرائی جب کہ باقی لیڈرز نے آج تک ٹک ٹاک اور ٹویٹس کے علاوہ کچھ نہیں کیا‘ یہ گھر میں بیٹھ کر چار پانچ منٹ کی تیزابی تقریر کرتے ہیں‘ عوام کو انقلاب کے لیے باہر نکلنے اور تبدیلی لانے کی دعوت دیتے ہیں‘ موٹر سائیکل پربیٹھ کر سوا منٹ کی وڈیو بناتے ہیں‘ بسوں کے ساتھ کھڑے ہو کر وی کا نشان بناتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں اور آخر میں گنڈا پور پر چڑھ جاتے ہیں۔

 آپ خان اور تحریک انصاف کا کمال دیکھیے‘ اس نے آج تک ان لوگوں سے یہ بھی نہیں پوچھا تم آخر غائب کہاں ہو جاتے ہو‘ تم ہر احتجاج سے پہلے گرفتار کیسے ہو جاتے ہو اورچند دن بعد تمہیں رہا کیوں کر دیا جاتا ہے اور پارٹی تم سے جب بھی فنڈ مانگتی ہے تو تمہاری جیب کیسے کٹ جاتی ہے‘تم آرام سے گھر میں کیوں بیٹھے ہو اور تمہارا کاروبار بھی کیوں چل رہا ہے؟ گنڈا پور کی تمام تر مخالفت کے باوجود میں یہ ماننے پر مجبور ہوں اس شخص نے پانچ مرتبہ ورکرز کو بھی نکالا‘ یہ انھیں اسلام آباد اور لاہور بھی لے کر گیا‘ اس نے پولیس اور رینجرز کا مقابلہ بھی کیا اور یہ آخر میں اپنے کارکنوں کو صحیح سلامت واپس بھی لے کر گیا‘ دوسرا اس نے احتجاج کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی راضی رکھا‘ یہ وفاقی حکومت کے ساتھ بھی چلتا رہا‘ اس نے پارٹی کو پشاور میں پناہ بھی دی‘ پارٹی کے تیسرے درجے کے لوگوں کی گالیاں اور طعنے بھی سنے‘ پارٹی کے اندر موجود مخالف گروپوں کو بھی فکس کیے رکھا۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ گنڈاپور نے اپنی وزارت اعلیٰ بھی بچائی‘ اس نے کے پی کو گورنر راج سے بھی بچایا اور خان کو بھی راضی رکھا‘ پارٹی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے بشریٰ بی بی کو بھی گنڈا پور نے رہا کرایا تھا اور یہ اسے پشاور بھی لے کر گیا‘ آج اگر بشریٰ بی بی اقتدار کو انجوائے کر رہی ہیں یا پارٹی کے پانچ سو لیڈرز کو اکٹھا کر کے ہدایات دے رہی ہیں تو اس کا سارا کریڈٹ گنڈا پور کو جاتا ہے‘ پارٹی مانے یا نہ مانے لیکن یہ بھی حقیقت ہے گنڈا پور ہر بار احتجاج بھی کر لیتا تھا اور ورکرز کو مار پڑنے سے بھی بچا لیتا تھا لیکن بشریٰ نے ایک بار احتجاج کیا اور اس کے بعد پارٹی کو دوسرے احتجاج کے قابل نہیں چھوڑ۔

 جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ 26 نومبر کو پارٹی قیادت خصوصا بشری بی بی کے جوتیاں اٹھا کر ڈی چوک سے فرار کے بعد اب ریاست یہ جان گئی ہے کہ پارٹی کو بھگانے کے لیے صرف دس منٹ کافی ہوتے ہیں‘ ٹھیک دس منٹ بعد گنڈا پور ہوتے ہیں نہ بشریٰ بی بی اور نہ ہی وہ غیرت مند جو سر پر کفن باندھ کر آئے تھے اور جنھوں نے خان کی رہائی تک اسلام آباد میں بیٹھنا تھا‘ بشریٰ کی سیاسی حماقت نے کارکنوں کا حوصلہ بھی توڑ دیا‘ لوگ سمجھ گئے ہم اگر اگلی بار اسلام آباد آئے تو ہمیں پہلے سے زیادہ پھینٹا بھی پڑے گا اور ہم جیلیں اور مقدمے بھی بھگتیں گے اور پارٹی پیچھے مڑ کر ہمارا حال احوال بھی نہیں پوچھے گی، چناں چہ خان کی اگلی کال پر کوئی شخص اسلام آباد آنے کی غلطی نہیں کرے گا، لیکن اس سب کے باوجود گنڈا پور پی ٹی ائی کے باقی رہنماؤں سے بہت بہتر ثابت ہوا ہے۔

جاوید کے بقول، آپ پی ٹی آئی کے پانچوں احتجاجوں کا پروفائل نکال کر دیکھ لیں‘ پنجاب سے کون نکلا تھا یا کس نے پنجابی کارکنوں کو نکالا تھا‘ کوئی ایک بھی نہیں‘ کراچی یا سندھ سے اسلام آباد کون آیا تھا‘ ڈاکٹر عارف علوی کا سروں کا سمندر کہاں رہ گیا تھا اور حماد اظہر‘ سلمان اکرم راجہ‘ وقاص اکرم اور لطیف کھوسہ کے جان نثار کہاں تھے‘ بلوچستان کا سونامی کس جگہ رک گیا تھا‘ آزاد کشمیر کے مجاہدین کوہالہ تک کیوں نہیں پہنچ سکے اور گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلیٰ خالد خورشید سنگ جانی میں تقریر کے بعد کہاں غائب ہو گئے تھے‘ گوہر خان کے قافلے ہر بار کہاں رہ جاتے ہیں اور کے پی کے بڑے سیاسی خاندان خان کے ٹائیگرز کو اسلام آباد کیوں نہیں لا پاتے؟ آج تک کسی نے ان سے پوچھا؟ جی نہیں‘ یہ لوگ کیوں کہ برتن دھوتے ہی نہیں ہیں‘ یہ گیلی مٹی پر قدم ہی نہیں رکھتے چناں چہ ان سے کوئی سوال نہیں کرتا جب کہ گنڈا پور نے پارٹی اور خان کی رہائی کی صلیب اٹھا رکھی ہے‘ اس لیے اسے مار بھی پڑتی ہے۔

278 لاشیں گرنے کا دعوی کرنے والے بالآخر 12 لاشیں گنوانے لگے

جاوید چوہدری کے بقول اسی لیے گنڈاپور ریاست اور خان دونوں کا دین دار بھی بن جاتا ہے‘ پارٹی میں ایک طرف مراد سعید‘ حماد اظہر اور وقاص اکرم جیسے بہادر‘ جرات مند اور بے باک لوگ ہیں‘ ایسے بے باک اور جرات مند لوگ جو تہہ خانوں سے سر باہر نکالنے کی غلطی بھی نہیں کر رہے‘ جو چھپ کر خفیہ جگہ سے عوام کو انقلاب کی دعوت دیتے ہیں‘ جو انھیں بتاتے ہیں ’’تم اگر اب نہیں نکلتے تو پھر کبھی نہیں نکل سکو گے‘‘ اور دوسری طرف گنڈا پور جیسے مسکین‘ کم زور اور بزدل لوگ ہیں جو ہر بار میدان میں آتے ہیں‘ مار کھاتے ہیں‘ پارٹی کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہیں اور آخر میں ان کی نیت پر بھی شک کیا جاتا ہے چناں چہ مجھے واقعی گنڈا پور مظلوم محسوس ہوتا ہے۔

Back to top button