عمران نے ڈیل کی تو انکا انجام بھی نواز شریف والا کیوں ہو گا؟

سینئیر اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ 14 برس قید کی سزا پانے والے عمران یاد رکھیں کہ رہائی کیلئے اسٹیبلشمنٹ سے کسی بھی خفیہ مفاہمت یا ڈیل کی صورت میں ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو نواز شریف کا ہوا ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ یہ پہلی بار نہیں کہ کسی سابق پاکستانی وزیر اعظم کو قید کی سزا سنائی گئی ہو۔ یہ بھی پہلی دفعہ نہیں کہ کسی سابق وزیر اعظم کو سزا سنا کر آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ جب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سزا سنا کر نااہل قرار دیا گیا تھا تو تب بھی عدالتی فیصلے کی تعریف کرنیوالے کم نہ تھے۔ جب جنرل ضیا کے آمرانہ دور میں ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا تو اس عدالتی فیصلے کے بعد یوم تشکر منانے والی جماعت اسلامی آج تک دوبارہ پائوں پر کھڑی نہیں ہو سکی۔ لیکن افسوس کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے ساتھ ہونیوالی ناانصافیوں سے سبق نہیں سیکھا اور اب وہ ناانصافی کرنیوالوں کے ہاتھ کا کھلونا بن چکی ہیں۔
حامد میر کے مطابق ستم ظریفی تو یہ ہے کہ تحریک انصاف میں بھی چابی والے کھلونوں کی کوئی کمی نہیں۔ انہی میں سے ایک لیڈر نے عمران خان کو جیل میں کہا کہ ’’وہ‘‘ کہتے ہیں شام کے حالات سے سبق سیکھو۔ شام میں فوج کمزور ہوئی تو وہاں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ عمران خان کو جیل میں پیغام دیا گیا کہ پاکستان کی بہتری کی خاطر فوج سے محاذ آرائی بند کر دیں۔ خان صاحب نے جواب میں کہا کہ فوج ہمارا اپنا ادارہ ہے، ہم فوج سے نہیں لڑنا چاہتے لیکن ریاست صرف ایک ادارے کے بل بوتے پر نہیں، چلتی ریاست کے تمام اداروں کا احتساب کیاجانا چاہئے۔ کاش کہ عمران خان یہ بات تب بھی یاد رکھتے جب وہ خود وزیراعظم تھے اور قومی اسمبلی میں بجٹ منظور کرانے کیلئے اپنی پارٹی کے ناراض ارکان کو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے ذریعہ ہانکنا کرتے تھے۔ اچھی بات ہے کہ اب عمران خان کو جیل میں یہ سمجھ آ گئی ہے کہ ریاست کو صرف ایک ادارے کی مدد سے نہیں بلکہ آئین کی مدد سے چلانا چاہئے اور آئین میں جس ادارے کی جو حدود متعین ہیں ان حدود کا احترام ہونا چاہئے۔ اگر فوج کے ادارے کو بھی یہ سمجھ آ گئی ہے کہ اگر وہ کمزور ہو گیا تو پاکستان میں شام جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں تویہ بھی اچھی بات ہے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کیساتھ مفاہمت کی کوشش بہت اچھی بات ہے۔ اگر اس ادارے کو خلائی مخلوق کہنے والے نواز شریف سے مفاہمت ہو سکتی ہے تو عمران خان سے بھی مفاہمت ہونی چاہئے۔ لیکن عمران یاد رکھیں کسی بھی خفیہ مفاہمت یا ڈیل کی صورت میں ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو نواز شریف کا ہوا۔ میں یہ قطعاً نہیں چاہتا کہ عمران خان ہمیشہ جیل میں رہیں۔ وہ مذاکرات کے ذریعہ صرف تحریک انصاف اور اس ملک کے اہل اختیار میں مفاہمت کی کوشش نہ کریں۔ لیکن اگر وہ واقعی ایک قومی لیڈر ہیں تو حکومت سے مذاکرات میں صرف تحریک انصاف کا نہیں بلکہ پاکستان کا مقدمہ پیش کریں۔ پاکستان کا مقدمہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کسی کے ہاتھ کا کھلونا بن کر آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور یکجہتی کا ضامن ہمارا ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ آئین ہے۔
عمران کو قید ی سزا ملنے کے بعد یوتھیے سڑکوں پر کیوں نہیں نکلے ؟
حامد میر کے بقول 1971ء میں پاکستان کے دو لخت ہو جانے کے بعد فوج کا ادارہ کمزور ہوگیا تو ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت سیاستدانوں نے 1973ء کے آئین پر اتفاق کرکے باقی ماندہ پاکستان کو بچا لیا۔ پاکستانی فوج کا ادارہ دوبارہ مضبوط ہوا تو آئین بار بار ٹوٹنے لگا۔ آج قوم کو اس آئین پر عمل درآمد کیلئے مذاکرات کی ضرورت ہے۔ اگر عمران خان کو بھی ڈیل کے ذریعے نواز شریف بنا دیا گیا تو پھر منظور پشتین اور ماہ رنگ بلوچ کا راستہ بھی صاف ہو جائیگا اسلئے ان کیساتھ بھی مفاہمت ہونی چاہئے۔ اگر آئین کیساتھ مذاق بند نہ ہوا تو پاکستان کو سنبھالنا بہت مشکل ہے۔