پاک بھارت جنگ شروع ہو گئی تو اسے روکنا ممکن کیوں نہیں ہوگا ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا ہے کہ جنگ چھیڑنا آسان ہوتا ہے لیکن جنگ ختم کرنا انتہائی مشکل ٹاسک بن جاتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ بھارت کے بڑھتے جنگی جنون کی وجہ سے دونوں نیوکلئیر ہمسایوں کے درمیان تصادم کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں، لیکن اگر انڈیا پاکستان کے مابین جنگ شروع ہو گئی تو پھر اسے روکنا ممکن نہیں ہوگا چونکہ امریکہ نے اس معاملے میں پہلے ہی ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔
انگریزی روزنامہ ڈان کے ادارتی صفحے پر شائع اپنی تازہ تحریر میں زاہد حسین کہتے ہیں کہ بھارت کے زیرِقبضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گردوں کے حملے اور تقریباً دو درجن سے زائد سیاحوں کے قتل عام نے مودی سرکار کو وہ بہانہ فراہم کردیا ہے کہ جس کی بنا پر وہ طبلِ جنگ بجا سکیں۔ شدت پسند قوم پرستی نئی بلندیوں کو چُھو رہی ہے۔ بےمنطق شور و غل میں معقول آوازیں دب رہی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کی وجہ سے لائن آف کنٹرول پر پہلے ہی گرما گرمی کی صورت حال ہے۔
انکا کہنا ہے کہ نئی دہلی پاکستان کو پہلگام حملے کا قصور وار ٹھہرا کر اشتعال انگیز مقدمہ تیار کررہا ہے لیکن وہ الزامات کے حوالے سے ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس دہشت گرد حملے نے مقبوضہ وادی میں حالات معمول پر آنے کے بیانیے کی نفی کی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ کشمیر کے عوام نے نئی دہلی کے اس فیصلے کو قبول کر لیا ہے جس کے تحت کشمیر کی خصوصی خود مختار حیثیت کو چھین لیا گیا تھا۔ نریندر مودی کی حکومت یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ یہ حملہ ان کی انٹیلی جنس ناکامی ہے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 7 لاکھ انڈین فوجیوں کی موجودگی کے باوجود پہلگام میں دہشت گردوں کا اتنا بڑا حملہ مقامی سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وحشیانہ قوت کا استعمال بھی کشمیریوں میں موجود جذبہ خود ارادیت کو کچل نہ سکا۔ لہکن بھارت نے تاحال حملے میں ملوث تنظیم کی سرکاری طور پر نشاندہی نہیں کی اور نہ ہی وہ ثبوت منظرعام پر لائے ہیں جو پاکستان کے اس حملے میں ملوث ہونے کی تائید کرسکیں۔ یاد رہے کہ پاکستان نے پہلگام حملے میں خود کو ملوث کرنے کے بھارتی الزام کو سختی کے ساتھ مسترد کیا ہے۔
زاہد حسین کے بقول اگرچہ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ پہلگام حملے کی تحقیقات ابھی جاری ہیں لیکن مودی حکومت تو پہلے ہی پاکستان کو حملے کا ذمہ دار ٹھہرا چکی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی نئی دہلی نے پاکستان کے خلاف کئی تعزیری کارروائیوں کا اعلان کیا۔ ریاستِ بہار میں انتخابی مہم سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ’حملے میں ملوث عناصر اور ان کے سرپرستوں کو ناقابلِ تصور سزا‘ دینے کی دھمکی دی۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جنگ کے لیے اٹھائی جانے والی آوازیں بہ ظاہر مقبوضہ وادی میں اپنی ناکامی پر سے عالمی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ پاکستان کو حملے سے براہِ راست منسلک کرنے کے شواہد کی عدم موجودگی کے باوجود یہ مضبوط اطلاعات ہیں کہ بھارت، پاکستان کے متعدد اہداف پر فوجی حملے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ محدود بھارتی سرجیلل۔سٹرائیکس بھی وسیع انتشار کا باعث بن سکتی ہیں۔ بھارت کا یہ حساب کہ پاکستان کے خلاف فوجی کارروائیوں کو جوہری نہج تک پہنچنے نہیں دیں گے، بالکل غلط ہے۔ دنیا کے غیرمستحکم خطوں میں سے ایک میں دونوں کے درمیان یہ خطرناک تصادم انتہائی خوفناک ثابت ہوگا۔
سینیئر صحافی کے مطابق جنوبی ایشیا کے یہ دو ممالک ماضی میں بھی کئی بار تنازعات کی زد میں آچکے ہیں۔ لیکن آج جو صورت حال ہے وہ ماضی کی نسبت کافی مختلف اور سنجیدہ ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتکاری کے تمام راستے بند ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگوں کے دوران بھی قائم رہنے والے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا یک طرفہ بھارتی فیصلہ انتہائی ناگوار ہے۔ اگرچہ پانی کا بہاؤ روکنا شاید ممکن نہ ہو لیکن پاکستان بھارت کے اس سخت اقدام کو ’اعلانِ جنگ‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔ اسلام آباد نے بھی جوابی اقدمات لیے ہیں۔ ایسے میں گمان ہوتا ہے کہ جیسے نئی دہلی نے 2019ء کے سبق کو بھلا دیا ہے کہ جب بھارتی جنگی طیاروں کو گرا کر اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر کے پاکستان نے جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا تھا۔
لیکن یہ امریکی سفارت کاروں کی مداخلت تھی جس نے صورت حال کو مزید بگڑنے سے بچایا، بصورت دیگر حالات قابو سے باہر ہوسکتے تھے جس کے خطے کے امن پر تباہ کُن اثرات مرتب ہوتے۔ زاہد حسین کا کہنا ہے کہ بھارتی قیادت شاید اپنے زعم میں جنگی جارحیت سے پیدا ہونے والے آتش گیر ماحول کے نقصانات کو بھول جاتی ہے۔ ان کا یہ یقین کہ جلد نتائج کے لیے جنگ کرنی چاہیے، انتہائی خطرناک ہے۔ تاہم انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ چھیڑنا تو آسان ہے لیکن اسے ختم کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ملک جتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو، ایک بار جب جنگ شروع ہوجائے تو نتائج پر اس کا کوئی اختیار نہیں رہتا۔ حالیہ تاریخ میں انتہائی طاقتور ممالک کی جگ ہنسائی کا باعث بننے والی کئی جنگوں سے ہم متعدد اسباق حاصل کرسکتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں ممالک ہمیشہ سے ہی تنازعات کی زد میں ہیں، پھر چاہے وہ تنازع ظاہری ہو یا خفیہ۔ دونوں طویل عرصے سے ایک دوسرے پر پراکسی وار لڑنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ پاکستان یا بھارت کو سزا دینے کے نعروں سے صرف تصفیہ طلب مسائل کے حل کے دروازے بند ہوں گے۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ پہلگام میں جو کچھ ہوا، اس کی مذمت ضرور ہونی چاہیے لیکن اس سانحے کو بنیاد بنا کر جنگ نہیں چھیڑنی چاہیے۔ پاکستان کے لیے ایک سبق ہے جو یہ ہے کہ یہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے یا دیگر غیرذمہ دارانہ بیانات دیتے ہیں جس کی مثال حالیہ دنوں سامنے آنے والا وفاقی وزیر دفاع کا تبصرہ ہے۔ جلتی پر تیل چھڑکنا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ بھارت کی جانب سے بھڑکائے جانے پر بھی پاکستان کو پُرسکون اور معقول رہنا ہوگا۔ اس سے پہلے کے حالات قابو سے باہر ہوں، دونوں فریقین کو پیچھے ہٹنا ہوگا۔ زاہد حسین کے مطابق جنگ کے نتائج ہمیشہ غیر متوقع ہوتے ہیں اور تصادم سے اکثر غیرارادی نتائج سامنے آتے ہیں۔ جنگوں کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کے امکانات موجود ہوتے ہیں جبکہ ان پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے اور یہ توقع سے زیادہ لمبے عرصے تک چلتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات ٹوٹ جانے کے باعث دونوں ممالک کے درمیان رابطہ زیادہ مشکل ہوچکا ہے لیکن گرما گرمی کم کرنے اور مذاکرات کا ماحول پیدا کرنے کے لیے دیگر بین الاقوامی چینلز کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔
جنگ شروع ہوئی تو انڈیا اور پاکستان میں سے کس کا پلڑا بھاری ہوگا ؟
2002ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا سنگین خطرہ موجود تھا لیکن عقل و فہم کی جیت ہوئی۔ نہ صرف جنگ کو روکا گیا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان امن کی راہ بھی ہموار ہوئی جس کا عملی مظاہرہ ہم سب نے دیکھا تھا۔ بدقسمتی سے انتہا پسند نریندر مودی کی حکومت نے مذاکرات کے تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے بھی اس مرتبہ انڈیا اور پاکستان کی جنگ میں تصفیہ کار کا کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ایسے میں دونوں نیوکلیئر ہمسائیوں کو معاملات مزید خرابی کی طرف لے جانے کی بجائے مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھ جانا چاہیے۔