جنگ چھڑی تو انڈیا کے مقابلے میں کونسا ملک پاکستان کا ساتھ دے گا ؟

1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ، چین، ایران، ترکی، سعودی عرب، لیبیا اور اردن پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے جبکہ چین نے تو بھارت کو الٹی میٹم بھی دے دیا تھا۔ تاہم اگر 2025 میں دوبارہ پاک بھارت جنگ ہوتی ہے تو بظاہر چین کے سوا کوئی دوسرا ملک پاکستان کا ساتھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ پچھلے 60 برسوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے۔

یاد رہے کہ 1965 میں پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کی مدد اس لیے کی تھی کہ تب پاکستان امریکی قیادت میں بننے والی فوجی اتحادی تنظیموں سیٹو اور سینٹو کا رکن تھا، لہٰذا جنگ شروع ہونے سے قبل ہی امریکہ نے پاکستان کو ایف 86 جیٹ طیارے، ایم 47 اور 48 ٹینک، فوجی تربیت اور دیگر ساز و سامان فراہم کرنا شروع کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ تب اندرا گاندھی بھارتی وزیراعظم تھی جبکہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان پاکستان پر حکمران تھے۔1965 کی جنگ کے دوران چین نے پاکستان کی بھر پور سیاسی و سفارتی حمایت کی، اور انڈیا کو ایک سخت وارننگ بھی جاری کر دی تھی۔ دوسری جانب سعودی عرب نے پاکستان کی مالی مدد کرنے کے علاوہ اسے سبسڈی شدہ تیل فراہم کیا اور بین الاقوامی فورمز میں اس کی کھل کر سیاسی حمایت کی۔

اسکے علاوہ 1965 کی جنگ میں ایران، ترکی، لیبیا اور اردن بھی پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ معروف دفاعی تجزیہ کار سید محمد علی کا کہنا ہے کہ 1965 کی جنگ میں پاکستان کے زیر استعمال زمینی، فضائی اور بحری افواج میں سے زیادہ تر ہتھیار امریکہ نے فراہم کیے تھے، انکا کہنا تھا کہ جنگ کے دوران پاکستان نے اسلحہ اور سپئیر پارٹس خریدنے کے لیے انہی ممالک کا رخ کیا جن کے پاس ایک ہی قسم کے امریکی ساختہ ہتھیار موجود تھے جو پاکستان کے زیر استعمال تھے جن میں ایران، ترکی اور اردن شامل تھے۔ اسکے بعد 1971 کی پاکستان انڈیا جنگ میں بھی چین نے پاکستان کی مضبوط سفارتی حمایت اور اپنی شمالی سرحد پر انڈیا کے لیے خطرہ پیدا کیا۔ اس دوران امریکہ نے پاکستان کی مدد کے لیے اپنا بحری بیڑا خلیجِ بنگال بھیجنے کا اعلان کیا جس میں ایٹمی اسلحے سے لیس ایک بحری جہاز بھی شامل تھا۔ یہ الگ بات یہ کہ جب تک یہ بیڑا پہنچتا، پاکستان کو بھارتی فوج کے ہاتھوں شکست ہو چکی تھی۔

1971 کی جنگ کے دوران بھی چین پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا۔ انڈین بمباری سے بچانے کے لیے پاکستانی طیاروں کو ایرانی حدود میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ یوں ایران نے بھی پاکستان کی مدد کی۔ سرحد کے ساتھ واقع تیسرے ملک افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے دور اقتدار میں ان کا ملک بھارتی جارحیت کے پیش نظر غیر جانبدار رہا اور پاکستان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا کہا۔ امریکہ نے 1971 کی جنگ کے دوران پاکستان کا ساتھ دیتے ہوئے انڈیا کو ساتواں بحری بیڑا بھیجنے کی دھمکی دی۔ اس دوران ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ امریکہ کو اندرا گاندھی کی کابینہ کے ایک رکن سے معلوم ہوا کہ انڈیا مشرقی پاکستان پر قبضہ کرنے اور بنگلہ دیش کا اعلان کرنے کے بعد مغربی پاکستان پر بھی حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ چنانچہ امریکہ نے ماسکو اور دلی دونوں کو وارننگ دے کر ایسا کرنے سے روک دیا۔ یعنی 1971 کی جنگ میں امریکہ پاکستان کے ساتھ ٹھوس طریقے سے کھڑا ہوا تھا۔

دفاعی تجزیہ کا سید محمد علی کے مطابق 1971 کی جنگ کو 1965 کے تجربے کے بعد دیکھا جائے تو ’پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کے ذرائع میں تنوع پیدا کیا اور تین قسم کے فرانسیسی، چینی اور امریکی بحری اور فضائی ہتھیار حاصل کیے، جبکہ اسے کچھ ہتھیار روس سے بھی ملے تھے۔‘ 1999 میں ہونے والی کارگل جنگ میں پاکستان کو کوئی بڑی فوجی یا مالی مدد نہیں ملی، کارگل جنگ میں پاکستان کا کیس کمزور تھا لیکن اسے چین اور مسلم ممالک کی سفارتی حمایت حاصل تھی، تاہم پاکستان نے مغرب کی حمایت کھو دی کیونکہ پاک فوج کے اہلکار لائن آف کنٹرول کے ذریعے انڈیا کی حدود میں داخل ہو رہے تھے۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے مابین بڑھتی کشیدگی کے باوجود انہیں جنگ کا امکان نظر نہیں آتا۔ اس حوالے سے سید مشاہد حسین کہتے ہیں کہ ’انڈیا جنگی جنون کو مسلسل ہوا تو دے رہا ہے لیکن لیکن انڈیا چند باتیں بخوبی جانتا ہے۔ اسے پتہ ہے کہ اگر اس نے بالاکوٹ حملے کی طرز پر دوبارہ پاکستانی حدود میں داخل ہونے کی غلطی کی تو کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بالاکوٹ حملے کے بعد پاکستان ایئر فورس نے جوابی حملہ کیا اور دو بھارتی طیارے گرا کر انکا پائلٹ بھی پکڑ لیا تھا جس کے بعد مودی سرکار کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ لہٰذا بھارتی جانتے ہیں کہ وہ جو بھی کریں گے، ہم جوابی وار لازمی کریں گے۔ مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ انڈیا کو صدر ٹرمپ کی جانب سے جنگ کا این او سی سے نہیں ملا، جس کی مودی توقع کر رہا تھا۔ ویسے بھی جنگ کی صورت میں انڈین معیشت کو دھچکہ لگے گا کیونکہ تمام بیرونی سرمایہ کار خصوصاً مغربی سرمایہ کار بھاگ جائیں گے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ انڈین فوج پاکستان کے ساتھ مکمل جنگ کے لیے تیار نہیں ہے، کیونکہ اسکا نتیجہ کسی مس ایڈونچر کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر بھارت کے ساتھ جنگ ہوئی تو چین کے سوا ماضی میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے والا کوئی بھی ملک اس کا ساتھ نہیں دے پائے گا چونکہ پچھلے 69 برسوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کے ماہر ڈاکٹر اسفند یار میر کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال 2019 کے بحران سے بھی آگے نکلنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بھارت کی قیادت پاکستان پر حملے کے لیے پرعزم نظر آ رہی ہے جبکہ پاکستان بھی ہر انڈین کارروائی کا بھرپور جواب دینے کے لیے یکساں طور پر تیار ہے۔ انہوں نے پاکستان کے لیے بین الاقوامی حمایت کے سوال پر کہا کہ چین سیاسی، سفارتی اور فوجی مددگار کے طور پر پاکستان کا سب سے قابل اعتماد شراکت کار رہا ہے اور اب بھی شاید چین ہی وہ واحد ملک ہوگا جو بھارت کے ساتھ جنگ چھڑنے کی صورت میں پاکستان کا ساتھ دے گا۔

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی واشنگٹن سے وابستہ دفاعی تجزیہ کار حسن عباس کا کہنا تھا کہ جنگوں کے دوران سفارتی حمایت سے کہیں زیادہ فوجی امداد کی اہمیت ہوتی ہے جس کی ہم زیادہ ممالک سے امید نہیں رکھ سکتے۔ اس ضمن میں ترکی اور ایران سے تھوڑی بہت امید رکھی جا سکتی ہے، لیکن ایران خود ایک وار زون جیسی صورت حال میں جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین ویسے تو پاکستان کی حمایت میں سامنے آیا ہے لیکن وہ پاکستان کو اس طرز کے ہتھیار نہیں دے سکتا جن کی اسے ضرورت ہے۔ اس صورت حال میں شاید قطر یا عمان دونوں ممالک میں ثالثی کی پیشکش کریں۔

پاکستان اور انڈیا کی جنگ چھڑنے کے امکانات کم کیوں ہونے لگے؟

دفاعی تجزیہ کار سید محمد علی نے انڈیا سے جنگوں کے دوران پاکستان کو دی گئی فوجی امداد سے متعلق بتایا کہ پاکستان کو دی جانے والی دفاعی امداد ممالک کے بین الاقوامی تعلقات، تصویری اور دفاعی روایات کے ساتھ ساتھ زمینی، بحری اور فضائی افواج، سازوسامان اور ہتھیاروں کی تربیت پر مبنی ہے۔  محمد علی کہتے ہیں کہ زمینی افواج زیادہ تر چینی ہتھیاروں پر انحصار کرتی ہیں۔ چھوٹے ہتھیار بھی جرمن یا پاکستان آرمی نے ہی بنائے ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ’آج کے دور میں پاکستان کے زیادہ تر ہتھیار پاکستان کے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔ چاہے وہ ٹینک ہوں، بکتر بند پرسنل کیریئر، چھوٹے ہتھیار، مارٹر، مشین گن وغیرہ۔‘ محمد علی کہتے ہیں کہ ایف 16 کے علاوہ زیادہ تر طیارے، خاص طور پر جے ایف 17، کے این سی تھنڈر پاکستان اور چین کے بنائے ہوئے ہیں اور فرانسیسیوں کا بھی پاکستان میں سپورٹ بیس موجود ہے۔

Back to top button