جنگ شروع ہوئی تو انڈیا اور پاکستان میں سے کس کا پلڑا بھاری ہوگا ؟

اس حقیقت کے باوجود کہ انڈیا اور پاکستان کے عوام مہنگائی اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، دونوں ممالک اب ایک اور جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ لہٰذا یہ جاننا ضروری ہے کہ جنگ شروع ہونے کی صورت میں فوجی طاقت کے لحاظ سے کس ملک کا پلڑا بھاری ہو گا۔

پاکستان اور انڈیا ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ 1971 میں لڑی جانے والی جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو اپنا ایک حصہ کھونا پڑا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا۔ محدود پیمانے پر ایک جنگ 1999 میں کارگل کے مقام پر بھی لڑی گئی جس میں پہلی مرتبہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کے خدشات بھی کھل کر سامنے آئے۔ دنیا میں ہتھیاروں اور عسکری طاقت پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ گلوبل فائر پاور کے مطابق 2025 میں دنیا کی سب سے طاقتور عسکری قوتوں میں امریکہ، روس اور چین کے بعد انڈیا کا نمبر آتا ہے۔ گلوبل فائر پاور کے مطابق اس فہرست میں شامل 145 ممالک میں پاکستان کا نمبر 12واں ہے۔

یہ فہرست 55 مختلف عناصر کو دیکھتے ہوئے مرتب کی گئی ہے جس میں جغرافیائی، معاشی، مقامی صنعت، قدرتی وسائل، کارکردگی، اور اس ملک کے پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کے ملکوں سے تعلق کو بھی مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے دفاعی بجٹ میں واضح فرق ہے۔ یاد رہے کہ سال 2024 میں انڈیا نے دفاع پر پاکستان کے مقابلے میں 9 گنا زیادہ رقم خرچ کی۔ 2025 میں انڈیا نے اپنے دفاع پر تقریباً 86 ارب ڈالر کے برابر رقم خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جبکہ پاکستان نے 25-2024 کے مالی سال کے لیے مسلح افواج کے لیے 10 ارب ڈالر سے زیادہ رقم مختص کی ہے۔ گلوبل فائر پاور کے مطابق انڈیا کے پاس زمینی فوج کے 22 لاکھ اہلکار ہیں جبکہ فضائیہ کے ملازمین کی تعداد تین لاکھ 10 ہزار اور بحریہ کے اہلکاروں کی تعداد ایک لاکھ 42 ہزار ہے۔ اسکے مقابلے میں پاکستان کی برّی فوج میں 13 لاکھ 19 ہزار جوان ہیں، بحریہ کے سوا لاکھ جبکہ فضائیہ کے 78 ہزار اہلکار ہیں۔

انڈین ایئرفورس دنیا کی چوتھی بڑی ایئرفورس ہے، جسے پاکستان پر واضح عددی برتری حاصل ہے۔ انڈین ایئرفورس کے پاس طیاروں کے 31 سکواڈرن ہیں۔ ہر سکوڈارن میں 17 یا 18 لڑاکا طیارے ہوتے ہیں، جبکہ اس کے حریف پاکستان ایئرفورس کے پاس 11 سکواڈرن ہیں۔ گلوبل فائر پاور کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کے پاس 2229 طیارے ہیں جبکہ پاکستان کے پاس موجود طیاروں کی تعداد 1399 ہے۔ ان میں سے اگر جنگی طیاروں کی بات کی جائے تو پاکستان کے 418 طیاروں کے مقابلے میں انڈیا کے پاس 643 جنگی طیارے ہیں۔ پاکستانی ایئر فورس کا سب سے کارآمد ہتھیار دو طیارے ہیں جن میں امریکہ سے حاصل کردہ ایف سولہ اور چینی مدد سے تیار کردہ جے ایف 17 تھنڈر شامل ہیں۔

جے ایف 17 کی تیاری کا مقصد ایک ایسا طیارہ بنانا تھا جو ہلکا ہو، ہر موسم میں، دن رات میں ایک لڑاکا طیارے کا کام کر سکے۔ یہ طیارہ کامرہ میں قائم پاکستان ایروناٹیکل کامپلیکس اور چین کی چینگڈو ایئرکرافٹ انڈسٹری کے تعاون سے بنایا گیا۔ دوسری جانب انڈین فضائیہ میں کچھ عرصے میں جو اضافہ ہوا ہے وہ فرانس کے بنے ہوئے رافیل طیاروں کی فضائی بیڑے میں شمولیت ہے۔ جوہری اسلحے سے لیس ہونے کی صلاحیت رکھنے والا رافیل طیارہ فضا میں 150 کلومیٹر تک میزائل داغ سکتا ہے جبکہ فضا سے زمین تک مار کرنے کی اس کی صلاحیت 300 کلومیٹر تک ہے۔

انڈیا کے آپریشنل ہوائی اڈوں کی تعداد 311 جبکہ پاکستان میں یہ تعداد 116 ہے۔ ٹینکوں کی بات کی جائے تو گلوبل فائر پاور کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے پاس 2672 اور انڈیا کے پاس اس سے ڈیڑھ گنا سے زیادہ یعنی 4201 ٹینک موجود ہیں۔ الخالد پاکستانی فوج کا جدید ٹینک ہے جو چین اور یوکرین کی مدد سے پاکستان میں ہی بنایا جا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں انڈیا کے پاس ارجن ایم کے ون اے اور ایم کے ٹو ٹینک ہیں۔ ایم کے ٹو ارجن ون کا جدید ماڈل ہے۔ اس ٹینک میں 1400 ہارس پاور انجن ہے اور یہ 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتا ہے۔

جہاں تک بحری قوت کی بات ہے تو انڈیا کو پاکستان پر بحری بیڑوں کی صورت میں برتری حاصل ہے۔انڈیا کے پاس دو طیارہ بردار بحری جہاز ہیں۔ ان میں سے وکرانت وہ جہاز ہے جو انڈیا نے خود تیار کیا ہے اور اسے 2022 میں بحریہ کے حوالے کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس پاکستان کے پاس کوئی طیارہ بردار بحری جہاز موجود نہیں۔ گلوبل فائر پاور کے مطابق بقیہ بحری قوت کی بات کی جائے تو انڈین بحریہ کے پاس کل 293 بحری اثاثے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈین بحری بیڑے میں 18 آبدوزیں بھی موجود ہیں جن میں سے تین ایٹمی طاقت سے چلنے والی آبدوزیں ہیں۔پاکستان کی بات کی جائے تو اس کے پاس آٹھ آبدوزیں ہیں لیکن اب پاکستان چین کی مدد سے 8 مزید آبدوزیں بھی حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان کے بحری اثاثوں کی تعداد 121 ہے جن میں سمندر میں بارودی سرنگیں بچھانے والے 3 جہاز بھی شامل ہیں۔

پاکستان کا میزائل پروگرام کروز اور میدانِ جنگ میں استعمال ہونے والے ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائلوں کے علاوہ کم اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں پر مشتمل ہے۔ بیلسٹک میزائلوں میں حتف سیریز کے حتف ون اور نصر میزائل شامل ہیں جو 60 سے 100 کلومیٹر کے فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی باری آتی ہے جن میں 200 کلومیٹر رینج والا ابدالی، 300 کلومیٹر تک مار کرنے والا غزنوی، 350 کلومیٹر کی رینج والا رعد، 700 کلومیٹر کی رینج والا بابر اور ساڑھے سات سو سے ایک ہزار کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والا شاہین ون میزائل شامل ہیں۔

پاکستان کے میڈیم رینج میزائلوں میں غوری ون اور ٹو، ابابیل اور شاہین ٹو اور شاہین تھری شامل ہیں۔ ان میں سے غوری ون 1500 کلومیٹر جبکہ غوری ٹو دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر نشانہ لگا سکتے ہیں جبکہ ابابیل میزائل کی رینج 2200 کلومیٹر ہے۔ شاہین ٹو اور تھری پاکستان کے سب سے زیادہ فاصلے پر نشانہ بنانے والے میزائل ہیں جن کی رینج 2500 سے 2750 کلومیٹر تک ہے۔

ابابیل اور شاہین تھری ملٹی پل ری انٹر وہیکل کہلاتے ہیں جو دشمن کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈ کو شکست دینے اور بے اثر کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ماہرین کے خیال میں یہ پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں یہ سب سے بہترین صلاحتیوں والے میزائل سسٹمز ہیں۔ ابابیل جنوبی ایشیا میں پہلا ایسا میزائل ہے جو 2200 کلومیٹر کے فاصلے تک متعدد وار ہیڈز یا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مختلف اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں انڈیا کا میزائل پروگرام 250 سے 600 کلومیٹر تک مار کرنے والے پرتھوی میزائلوں سے لے کر 1200 سے 8000 کلومیٹر تک مار کرنے والے اگنی سیریز کے میزائلوں کے علاوہ نربھے اور براہموس سیریز کے کروز میزائلوں پر مشتمل ہے۔ اگنی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ہیں،جن میں اگنی-فائیو بھی شامل ہے اور اس کی رینج سات سے آٹھ ہزار کلومیٹر تک ہے۔

پاکستانی ایئرسپیس کی بندش کے بعدبھارتی جہازگراؤنڈہوناشروع

اسکے علاوہ انڈیا اور پاکستان دونوں ہی اپنے اسلحہ خانے میں عسکری ڈرونز کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ دونوں کی جانب سے نہ صرف کئی غیر ملکی ڈرونز خریدے گئے ہیں بلکہ خود بھی اس ٹیکنالوجی کو تیار کیا گیا ہے جو بِنا پائلٹ کے دشمن پر نگرانی، جاسوسی یا اہداف کو نشانے بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عسکری مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے ڈرونز انتہائی اونچائی پر دیر تک پرواز کرنے اور ریڈار میں آئے بغیر زمین پر فوج کی سرگرمیوں، ان کی تعیناتیوں، اہم تنصیبات، نئی تعمیرات اور فوجی ٹھکانوں وغیرہ کی موثر نگرانی اور مخصوص ہدف کو تباہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔

Back to top button