کیا عمران سٹریٹ پاور کے بعد اپنا ووٹ بینک بھی کھونے والے ہیں ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ساؤتھ ایشیا کے دو نیوکلیئر ہمسائیوں کے مابین سیز فائر کرواتے ہوئے خطے کو تجارت کی جو راہ دکھائی ہے، انڈیا اور پاکستان دونوں کو اس پر چلنا چاہئے اور جنگ کے راستے کو مکمل طور پر ترک کر دینا چاہیے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جس بیرونی دنیا نے ہمیں جنگجو ریاست کا نام دیکر بدنام کر رکھا ہے، لہٰذا ہمیں بیرونی دنیا کو کاروبار اور تجارت کے میدانوں میں بھی اچھی پرفارمنس دکھانا ہو گی۔ مودی اگر امن مذاکرات نہیں کرنا چاہتا تو اسے بڑھکیں مارنے دیں، ہم اپنے لیے نئی منزل کا تعین کریں اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی طرح نیو بزنس اور نیو اکنامکس کی طرف جائیں، خلیج کے یہ تینوں ملک ہمارے قریب ترین دوست ہیں، ان کی اس تجارتی پہل کا ہمیں بھی حصہ بننا چاہئے۔ پاکستان نے امریکہ کو زیرو ٹیرف کی جو پیشکش کی ہے اسے آگے بڑھانا چاہئے۔ یہ صدی ایشیا کی ہے اور اس صدی کا ایجنڈا صرف اور صرف معاشی بہتری ہے۔ ہمیں سنگاپور اور تائیوان کی طرح انڈیا کے بھاری ٹیرف سے ہٹ کر معیشت دوست پالیسیاں بنانی چاہئیں تاکہ پاکستان اس صدی کی معاشی دوڑ میں واقعی جی 10 اور جی 20 میں شراکت کار بن جائے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جنگی صورتحال نے ہر پاکستانی کو جذباتی کر رکھا ہے۔ لیکن بھارتی میڈیا کے جنگ بازوں اور بڑھک بازوں نے تو دلیل، منطق اور امن دوستی کے نظریات کو تار تار کر دیا ہے ۔ ماضی میں میڈیا کے کچھ لوگ جوش کے ساتھ ہوش سے بھی جڑے رہنے کی کوشش کرتے تھے مگر حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران انڈین تجربہ کاروں اور مودی میڈیا نے صحافتی اقدار کو پامال کر کے اپنی ساکھ تباہ کر لی ہے۔ پاکستانی میڈیا نےبھارت کی نسبت ذمہ داری سے کام لیا اور چھان پھٹک کر خبریں چلائیں۔ کراچی کے قبضے کی طرح دہلی یا ممبئی پر قبضے کا دعویٰ نہیں کر دیا ۔

عام طور پر جنون کا ردعمل اور زیادہ جنون کی شکل میں نکلتا ہے۔ جوش اور حب الوطنی کا مقابلہ اس سے بڑھتے ہوئے جوش اور زیادہ حب الوطنی سے ہوتا ہے۔ چنانچہ سرحد کے دونوں طرف سے یہ ہو رہا ہے جو میرے اتھرے اور سرکش خیال کے مطابق غلط حکمت عملی ہے۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ میری ناقص رائے میں ہندوتوا کے مقابلے میں ہمیں اپنی اقلیتوں کو ساتھ ملا کر کثیر المذہبی اور کثیر الخیال پاکستان کا امیج دینا چاہئے۔ ہمیں پاکستان کی شناخت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی، سکھ اور ہندو اقلیت کو شانہ بہ شانہ دکھانا چاہئے۔ میرے پیشِ نظر جناح کا یہ فرمان ہے کہ ’’پاکستان اقلیتوں کا مکمل تحفظ کرے گا کیونکہ یہ ملک ایک اقلیت نے بنایا ہے‘‘۔ آج 75 سال بعد اگر ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ فرق روا رکھا جا رہا ہے تو ہمیں اس سے متضاد رویہ اپنا کر خود کو بہتر ثابت کرنا ہو گا ۔

جنگ کے دوران خاموش رہنے والے عمران کی مقبولیت کو بڑا دھچکا

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم مودی ،اُن کے انتہا پسند حامی اور جنگ ساز میڈیا جس طرح کی ہذیانی گفتگو اور بڑھکیں مار رہے ہیں ہمیں اس سے بالکل متضاد دلیل، منطق اور شائستگی کا رویہ اپنانا چاہئے۔ بھارت، ترکیہ اور آذربائیجان کا بے شک بائیکاٹ کرے لیکن ہمیں اس بغض زدہ رویے سے ہٹ کر سوچنا ہے۔ بھارت اگر۔پاکستان کیساتھ پراکسی وار بند نہیں بھی کرتا تو بھی ہمیں یہ جنگ بند کر دینی چاہئے اور اس حوالے سے دنیا کو اپنے صاف ہاتھ واضح طور پر دکھانے چاہئیں۔ دوسری طرف بھارت اگر پراکسی وار جاری رکھے بلوچ اور طالبان دہشت گردوں کی درپردہ حمایت جاری رکھے تو اس کے گناہ آلود ہاتھ دنیا کو دکھائے جائیں۔ بھارت اس خطے میں بالادستی چاہتا ہے ہمیں اس خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کو مزید بہتر کرنا چاہئے ۔اتھرے اور سرکش خیال کے تحت بھارت کی جارحانہ اور بالادست پالیسیوں کا توڑ اس سے الٹ رویے اپنانے میں ہے، نہ کہ بھارت ہی کے راستے پر چلنے میں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ فتح کے ان لمحات میں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ سیاسی عدم استحکام ہمارا اہم ترین مسئلہ ہے۔ فتح کی سرشاری کا نشہ چھ یا آٹھ ماہ رہے گا، اسکے بعد تلخ سیاسی حقائق پھر سے سر اٹھانا شروع کر دیں گے۔ شہباز شریف حکومت کی سیاسی بنیاد بہت کمزور ہے جسے وہ مضبوط کرنے کی کوئی کوشش سرے سے کر ہی نہیں رہی۔ جنگ کے حالیہ نتائج سے عمران خان کمزور ضرور ہوئے ہیں لیکن وہ اب بھی ایک سیاسی حقیقت ہیں، ان کو قومی دھارے میں شامل کئے بغیر پائیدار ترقی ممکن نہیں۔ دوسری طرف کپتان کو بھی انا کی پہاڑی سے نیچے آکر زمینی حقائق سے آشنائی کی ضرورت ہے۔ طاقتور  فوجی اسٹیبلشمینٹ سے لڑائی نے پہلے انکی سٹریٹ پاور چھینی، اگلا حملہ ان کے ووٹ بینک پر ہو گا۔ اگر عمران خان موجودہ سسٹم کا حصہ بنتے ہوئے آئندہ الیکشن کے جلدی، غیر جانبدارانہ اور شفاف طریقے سے کروانے کی ڈیل کر لیں تو ملک میں عمومی مصالحت کا ماحول بن جائے گا۔

Back to top button