عمران خان پاکستانی سیاست میں غیر اہم اور غیر متعلق کیوں ہو گئے ؟

حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران اپنی ملک اور قوم کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے دشمن کی کامیابی کی خواہش پالنے والے عمران خان انڈیا کی عبرت ناک شکست کے بعد پاکستانی سیاست میں غیر اہم اور غیر متعلق یعنی irrelevant ہو گئے ہیں۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری کہتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں قیدی نمبر 804 پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ان کی جانب سے غیر ملکی ترسیلات زر پاکستان نہ بھیجنے کی اپیل پہلے ہی ناکام ہوگئی تھی۔ انڈیا کے ساتھ جنگ کے دوران افواج پاکستان کا برا سوچنے والے عمران خان کے ہم نوا نامراد ٹھہرے اور بھارت کو منہ کی کھانا پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ اب خان صاحب کی پاکستان کیخلاف جاری جنگ کو نئی سانسیں فراہم کرنے کیلئے لندن سے انکے بیٹوں کو میدان میں اُتارا گیا ہے جنہوں نے صدر ٹرمپ سے اپنے والد کی رہائی کے لیے مدد مانگی ہے۔ یاد رہے کہ یہ اسی عمران خان کے بچے ہیں جو ماضی میں امریکہ کو للکارتے ہوئے ایبسولیوٹلی ناٹ کے نعرے لگایا کرتا تھا اور جس نے اپنی ساری امیدوں کا مرکز صدر ٹرمپ کو بنا رکھا تھا۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ بھارت کیساتھ چار روزہ جنگ کے دوران ہم سرخرو ہوئے اور اس کامیابی کا کریڈٹ تینوں مسلح افواج اور سیاسی قیادت کو جاتا ہے مگر ایک شخصیت کو ملک و قوم پر ترجیح دینے والوں نے جس شرانگیزی کا مظاہرہ کیا، اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ سرحدوں پر تنائو نورا کشتی ہے، بھارت حملہ نہیں کریگا۔ کمپنی کی مشہوری کیلئے پاک بھارت کشیدگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ جب جنگ کے سائے منڈلاتے دکھائی دیئے تو کہا جانے لگا کہ ہم اس فوج کیساتھ کھڑے نہیں ہونگے، خود جاکر بھارت سے لڑو۔ عمران خان کے سپاہیوں نے جنگ کے دوران اپنی فوج کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے سوشل میڈیا پر اس کا تمسخر اُڑانا شروع کر دیا۔ مہاتما کے ایک پیروکار دانشور نے تو یہ تک کہا کہ ’’ایک رافیل جنگی جہاز کی قیمت پاکستان کے پورے دفاعی بجٹ کے برابر ہے۔ تم لوگوں کی اوقات کیا ہے کہ اسے انگلی بھی لگا سکو؟ـ‘‘ موصوف فرط جذبات میں کچھ زیادہ کہہ گئے یا خود انہیں بھی معلوم نہیں کہ جنوں میں کیا کیا بک رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ قیدی نمبر 804 کی تقلید میں ملک دشمنی کے سب حدیں عبور کرنیوالوں کو اپنے ممدوح مودی سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ اتنی بڑی فوج، جدید، مہنگے اڑن کھٹولوں اور مغربی ٹیکنالوجی کے باوجود بھارت کو مات کیوں ہوئی؟ 77 بلین ڈالرز کے دفاعی بجٹ کے باوجود بھارتی فوج کو ہزیمت، شرمندگی اور خجالت کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ بہرحال جب جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور 10مئی 2025ء کی صبح پاکستان کی فتح مبین کا سورج طلوع ہوتا دکھائی دیا تو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ان جعلی انقلابیوں نے پینترا بدل کر یہ موقف اختیار کر لیا کہ یہ کامیابی تو ہمارے دم قدم سے ملی ہے۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ اگر ڈیجیٹل میڈیا پر ہم بھارت کے دانت کھٹے نہ کرتے تو انکے بس کی بات نہیں تھی۔ اگر بات ہتھیلی پر سرسوں جمانے تک محدود رہتی تو شاید نظر انداز کر دی جاتی کہ ناکامی یتیم ہوتی ہے اور کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں، مگر ان فتنہ گروں نے ایک اور باریک واردات ڈالتے ہوئے بھارت کے خلاف جنگ میں کامیابی کا کریڈٹ صرف ایئر فورس کو دینا شروع کر دیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ کامیابی کا سہرا فضائیہ کے سر باندھ کر بری اور بحری افواج ہی نہیں بلکہ سیاسی قیادت کو بھی مائنس کر دیا جائے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں ہونیوالی لڑائیوں میں فضائیہ کو ہراول دستے کی حیثیت حاصل ہے لیکن قائدانہ کردار آج بھی بری فوج کے پاس ہے۔ ایئر ڈیفنس سسٹم کا کنٹرول آرمی نے سنبھال رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص ایک ایسی مربوط اور مشترکہ جنگی حکمت عملی کے تحت ترتیب دیا گیا جس میں تینوں مسلح افواج نے بھرپور کردار ادا کیا۔
اگر بری، بحری اور فضائی افواج میں مثالی تعاون کا مظاہرہ نہ کیا جاتا تو اپنے سے تین گنا بڑے دشمن کو شکست نہیں دی جا سکتی تھی۔ لیکن کینہ و بغض کا شکار یوتھیے ایسا پروپیگنڈا کر کے فوج میں پھوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ میں نے پہلی بار یہ منظر دیکھا کہ افواج پاکستان کے محکمہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے دائیں طرف وائس ایڈمرل رب نواز اور بائیں جانب ایئر وائس مارشل اورنگ زیب کو ساتھ بٹھا کر بریفنگ دی ورنہ اس سے پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر اکیلے ہی پریس کانفرنس کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ 27 فروری 2019 کو جب بھارت کے دو جنگی جہاز تباہ کرکے پائلٹ ابھینندن ورتمان کو گرفتار کیا گیا تب بھی ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ہی بریفنگ دی تھی۔اسی طرح نونہالانِ انقلاب نیم دلی سے افواج پاکستان کی کامیابی کو تسلیم کرتے ہوئے سیاسی قیادت کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ کبھی وزیر دفاع خواجہ آصف پر طنز کیا جاتا ہے تو کبھی وزیراعظم شہباز شریف پر پھبتیاں کسی جاتی ہیں۔
فیلڈ مارشل بننے والے جنرل عاصم منیر کو قسمت کا دھنی کیوں کہتے ہیں؟
بلال غوری کہتے ہیں کہ چڑیا کے توسط سے یہ بے پر کی بھی اُڑائی گئی کہ پاک بھارت جنگ کے دوران قیدی نمبر 804 کو اڈیالہ جیل میں جا کر صورتحال بارے بریفنگ دی گئی جس کے بعد بانی نے سوشل میڈیا کے محاذ پر برسرپیکار اپنے شتونگڑوں کو پاکستان کے حق میں بات کرنے کا فرمان جاری کیا۔ بالفرض محال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ملاقات خفیہ تھی تو اعلامیہ کب جاری ہوا؟ اور اس پر عملدرآمد کی نوبت کب آئی ؟ سچ یہ ہے کہ ایسی کوئی بریفنگ نہیں دی گئی، البتہ فوج نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے انہیں یہ پیغام ضرور دیا گیا تھا کہ انکا سوشل میڈیا بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران بھی اپنی ہی فوج کے خلاف زہر اُگل رہا ہے، لیکن خان نے اپنے یوتھیوں کی لگامیں کھینچنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ حالیہ جنگ میں پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی شکست فاش کے نتیجے میں قیدی نمبر 804 غیر متعلق ہو گئے ہیں۔