فوج کا دروازہ پیٹنے والے عمران خان کو کوئی جواب کیوں نہیں مل رہا ؟

پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے دروازے پر دستک دیتے دیتے عمران خان کے ہاتھوں سے لہو رسنے لگا ہے لیکن افسوس کہ کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ ایسے میں ایک بار پھر تحریک انصاف کی جانب سے شاہراہوں کو بند کرنے، عوام کو سڑکوں پہ لانے اور انقلاب بپا کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ تاہم 26 نومبر 2024 کو اسلام آباد سے جوتیاں اٹھا کر فرار ہونے والے خان کے حمایتیوں کی ڈی چوک واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپریل 2022 میں، تحریکِ عدم اعتماد، کے ذریعے محرومِ اقتدار ہونے کے بعد تحریکِ انصاف کے سامنے ایک راستہ تو وہی تھا جو جمہوری فکر کی حامل، سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے والی بالغ فکر جماعتیں اختیار کیا کرتی ہیں۔ وہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جاتی اور صرف دو ووٹوں کی برتری سے قائم مخلوط حکومت کا ناطقہ بند کئے رکھتی اور سائفر جیسے ناٹک رچانے اور فوج کو نشانے پر رکھ لینے کے بجائے تحمل اور استقامت کیساتھ انتخابات کی طرف پیش قدمی کرتی۔ لیکن گزشتہ تین برس میں عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے سیاسی سفر کو ایسا سفرِ رائیگاں قرار دیا جا سکتا ہے جو قومی سیاست میں داستانِ عبرت بن چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے اس سیاسی سفر کے ہر صفحے پر اُس کے بانی کی بے حکمتی، انا پرستی، ہٹ دھرمی ، خُود شکنی اور سیاسی فہم وفراست سے محرومی کے نوشتے رقم ہیں۔
عرفان صدیقی یاد دلاتے ہیں کہ اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی چاپ سنتے ہی، عمران خان نے پہلے ہدف کا تعین کرتے ہوئے، تحریکِ عدم اعتماد کو حکومتی تبدیلی کی عالمی سازش قرار دے دیا۔ انہوں نے سائفر لہراتے ہوئے اُسے امریکی اور مقامی ’’میرجعفروں اور میر صادقوں‘‘ کی ملی بھگت کا نام دیا۔ انہوں نے مظلومی سے جڑے جرات وبہادری کے خود تراش نظریے کو ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ اور ’’غلامی نامنظور‘‘ اور جیسے انقلابی نعرے دیے۔ اسی دوران موصوف نے جنرل باجوہ سے ملاقاتوں میں التماس کی کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ پر مشتمل پی ڈی ایم کو فارغ کرکے اُنہیں پھر سے وزارت عظمی کی مسند پر بٹھا دیا جائے۔ اسکے عوض انہوں نے نہایت بے حیائی کیساتھ جنرل باجوہ کو تاحیات آرمی چیف بنانے کی پیشکش کی۔
عمران خان کا دوسرا اہم ہدف یہ تھا کہ پاکستان معاشی طورپر سنبھلنے نہ پائے اور دیوالیہ قرار پاکر زمیں بوس ہوجائے۔ اس ہدف کیلئے اُنہوں نے دلجمعی سے بھرپور مہم چلائی۔ اگست 2022ءمیں خان صاحب کے وزیرخزانہ شوکت ترین کی آڈیو سامنے آئی جس میں وہ خیبرپختون خوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو تلقین کرتے پائے گئے کہ آئی ایم ایف کو عدم تعاون کے خطوط لکھے جائیں تاکہ پاکستان کو کوئی نیا پروگرام نہ مل پائے۔ 23 مئی 2024 کو عمران خان نے اڈیالہ جیل سے آئی ایم ایف کو ایک طویل خط میں تنبیہہ کی کہ وہ ’’انتخابات کا آڈٹ‘‘ کئے بغیر پاکستان کو قرض دینے سے باز رہے۔ اس خط کے تین ہفتوں بعد، 15 مارچ کو پی ٹی آئی نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ہیڈکوارٹرز کے سامنے ایک مظاہرہ کیا۔ فروری 2025 میں عمران خان کے حکم پر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما عمرایوب نے آئی ایم ایف کے کنٹری ہیڈ برائے پاکستان سے ملاقات میں ایک فتنہ پرور خط حوالے کیا جس کیساتھ پاکستان کی ’’غزہ‘‘ جیسی صورت حال بارے ایک بھاری بھرکم ’’ڈوزئیر‘‘ بھی منسلک تھا۔ عرضداشت یہ تھی کہ پاکستان کو دیوالیہ پن کے بحرِ ظلمات میں غرق ہونے دیا جائے۔ پاکستان کی معاشی ناکہ بندی کیلئے عمران خان نے جنوری 2024 میں سمندر پار پاکستانیوں سے پُرزور اپیل کی کہ وہ اپنی رقوم پاکستان نہ بھیجیں۔ یہ اپیل عین اُس دن جاری کی گئی جس دن پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات کی بساط بچھ رہی تھی۔
عرفان صدیقی یاد دلاتے ہیں کہ عمران خان کا تیسرا اہم ہدف، جس کی منصوبہ بندی وہ اپنے عہد حکومت ہی میں کرچکے تھے، یہ تھا کہ جنرل عاصم منیر کو کسی طور آرمی چیف نہ بننے دیا جائے۔ آئی ایس آئی کا سربراہ ہوتے ہوئے، دراصل جنرل عاصم منیر سے ’’دوگستاخیاں‘‘ سرزد ہوچکی تھیں۔ پہلی یہ کہ انہوں نے ٹھوس شواہد اور دستاویزات کیساتھ وزیراعظم عمران کو بتایا تھا کہ اُن کا گھر کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے۔ دوسری یہ کہ نیک نفس جرنیل نے دوٹوک انداز میں انکار کردیا کہ وہ خان صاحب کے سیاسی مخالفین کے خلاف جعلی مقدمات بنائیں اور انہیں جیل میں ڈالیں۔ چنانچہ عاصم منیر سے عمران کی خفگی اتنی بڑھی کہ انہیں صرف سات ماہ اکیس دن بعد ہی ڈی جی آئی ایس آئی کے منصب سے ہٹا کر کنیزِ حرم جیسا کردار ادا کرنے والے فیض حمید کو کمان سونپ دی گئی۔ عاصم منیر کو آرمی چیف بننے سے روکنے کیلئے خان صاحب نے آخری فیصلہ کن یلغار، تقرری کے اعلان سے دو دن قبل کی جب وہ زخمی ٹانگ لئے، تھکا دینے والا سفر طے کرکے راولپنڈی پہنچے اور جی ایچ کیو کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کیا۔ لیکن شومئی قسمت کہ عوام کا مجمع ایک ہزار سے آگے نہ بڑھ پایا لہٰذا موصوف مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔
جنرل باجوہ نے آخری لمحے تک عاصم منیر کی بھرپور مخالفت کی لیکن ایک فیصلہ لوحِ قضا وقدر پر کندہ ہوچکا تھا۔ دوسری جانب عمران اور فیض حمید گٹھ جوڑ نے ہمت نہ ہاری۔ 9 مئی 2023 کو تین سو کے لگ بھگ فوجی تنصیبات، فضائیہ کے اڈوں اور شہداء کے مزاروں کی تاخت وتاراج بھی فوج کے اندر ارتعاش پیدا کرکے عاصم منیر کا تختہ الٹنے کی سازش تھی۔
سید عاصم منیر سے مخاصمت کے ساتھ ساتھ، خان صاحب نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی نیزے کی اَنی پہ رکھا ہوا تھا۔ اُن کے چہرے پر رُسوائیاں تھوپ کر گھر بھیجنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلے گئے لیکن قاضی صاحب، وقت آنے پر چیف جسٹس بنے اور پوری تمکنت کے ساتھ اپنی میعاد پوری کی۔ عمران خان نے اپنے ڈھب کی عدلیہ تخلیق کرنے کے لئے بھی بڑے جتن کئے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ سے چھ جج صاحبان کا مکتوب گرامی طلوع ہونے کے بعد اڈیالہ جیل سے بھی رنگا رنگ خطوط آنے لگے۔ پھر خود عدالتیں بھی مشقِ سخن میں شامل ہوگئیں خان صاحب کی شاخِ آرزو پر کونپلیں پھوٹ ہی رہی تھیں کہ چھبیسویں آئینی ترمیم آگئی اور ’’انقلاب‘‘جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ اب برسرِ زمین حقیقت یہ ہے کہ سارے اہداف اور سارے منصوبے گورستانِ تاریخ کا رزق ہوچکے ہیں۔ سائفر کے ناٹک اور بیسیوں جلسوں کے باوجود کسی انقلاب نے انگڑائی نہیں لی۔ عوام اب اس کارِلاحاصل سے لاتعلق ہوچکے ہیں۔ ’’فائنل کال‘‘ کی بڑی ہزیمت نے پی ٹی آئی کے دست وبازو کی قوت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔ معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہوچکی ہے اور اللہ کے فضل وکرم سے دیوالیہ پن کا خطرہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ خان صاحب کی اپیل کے باوجود سمندر پار سے ترسیلات زر نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں۔ سید عاصم منیر، بھارت کے خلاف جنگ میں فتحِ مبین کے بعد فیلڈ مارشل کے بلند ترین منصب پر فائز ہوچکے ہیں۔ خان صاحب کی سپاہِ سوشل میڈیا کا نشانہ بننے والی پاک فوج، اہل وطن کے دلوں کے بہت قریب آگئی ہے۔ ’’صداقت وامانت‘‘ کی سنداتِ فضیلت بانٹنے اور ’’گُڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر استقبال کرنیوالی عدلیہ قصّہ ماضی ہوچکی۔
عمران اور انکے ساتھیوں کی بقا فیض حمید کی بریت سےکیوں جڑی ہے؟
سپریم کورٹ فوجی عدالتوں سے دی جانے والی سزائوں کی توثیق کرچکی۔ سپریم کورٹ ہی کی ہدایت کے مطابق 14 اگست تک انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں 9 مئی کے ملزموں کے مقدر کا فیصلہ کرنے جا رہی ہیں۔ فیض حمید کا کورٹ مارشل، فیصل ہونے کو ہے۔ خود فریبی کی کارگاہ میں تراشا گیا ٹرمپ نامی مسیحا، اڈیالہ جیل سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ یہ ہے وہ نیو نارمل (New Normal) یا ’’معمولِ نو‘‘، جو پاکستان میں نہایت مضبوطی کے ساتھ خیمے گاڑ چکا ہے۔ اس ’’معمولِ نو‘‘ کی چولیں عمدگی کے ساتھ ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ دوسری جانب فوجی اسٹیبلشمنٹ کے دروازے پر دستک دیتے دیتے خان کے ہاتھوں سے لہو رسنے لگا ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ ایسے میں ایک بار پھر شاہراہوں کو بند کرنے، عوام کو سڑکوں پہ لانے اور انقلاب بپا کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ تاہم 26 نومبر کو اسلام اباد سے فرار ہونے والے عمران خان کے حمایتیوں کی ڈی چوک واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔