عمران خان کے روزانہ کے یوٹرن: یوتھیے لوگوں سے منہ چھپانے لگے

 پی ٹی آئی کی مجموعی سیاست تضادات اور عجائبات سے عبارت ہے۔ ایک وقت میں یوتھیے امریکہ کو پی ٹی آئی کے اقتدار کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ہم کوئی غلام ہیں کے نعرے لگاتے ہیں جبکہ کچھ عرصے بعد اسی امریکہ سے اپنے اقتدار کی بھیک مانگتے ہوئے ٹرمپ کو نیا ابو قرار دے دیتے ہیں، کبھی مولانا فضل الرحمٰن کی فضلو اور مولانا ڈیزل کے نعروں سے تضحیک کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اسی مولانا فضل الرحمٰن کے در کی حاضری اور ان کی اقتداء میں نماز کی ادائیگی کو اپنے لئے ذریعہ نجات قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح عسکری قیادت کو کبھی میر جعفر اور میر صادق کے لقب دیتے ہوئے موجودہ سیاسی نظام کو یحییٰ خان پارٹ ٹو قرار دیتے ہیں اور پھر کچھ عرصے بعد نہ صرف خفیہ بلکہ کھلے خطوط کے ذریعے اسی اسٹیبلشمنٹ کی منتیں اور ترلے کرتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان چونکہ نہ سیاسی سوچ کے حامل ہیں نہ ان کو سیاست کے نشیب و فراز سے کوئی خاص واقفیت ہے اس لئے پی ٹی آئی کے مختلف گروپس کےمتضاد خیالات کے لوگ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان کو مختلف طرح کے مشورے دیتے ہیں اور بانی پی ٹی آئی جو ہر طرف سے مایوس ہو کر شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں وقتی طور پر ان مشوروں پر عمل کرنے کا اعلان کر دیتے ہیں تاہم بعد میں جب انھیں مشوروں پر عملدرآمد کے نتائج کا علم ہوتا ہے تو وہ اپنے ہی اعلانات سے مکر کر یوٹرن لے لیتے ہیں۔اس طرح بغیر تدبر کے یوتھیوں کے مشوروں پرعملدرآمد کا انجام ناکامی و سبکی کی صورت میں نکلتا ہے

مبصرین کے مطابق 9 مئی اور 26نومبر کو ڈی چوک جانے کے مشوروں نے پی ٹی آئی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ سول نافرمانی کی تحریک اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ترسیلات زر سے منع کرنے جیسے اعلانات بانی پی ٹی آئی کیلئے سبکی میں اضافے کا باعث بنے۔ پھر بیرون ملک چند بھگوڑوں اور اشتہاریوں نے بانی کو ٹرمپ کال کا آسرا دیا جوسراب ثابت ہوا۔ اس سے بڑی دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ٹرمپ کال کا دلاسہ صدا بہ صحرا ثابت ہونے سے بانی کے ڈپریشن میں مزید اضافہ ہوا۔ اسی طرح پی ٹی آئی کی بار بار کوششوں سے حکومت سے مذاکرات کا عمل شروع ہی ہوا تھا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے غیر منطقی اور ناقابل عمل مطالبات سامنے آئے لیکن ان مطالبات پر مذاکرات کرنے سے پہلے ہی عمران خان نے ایک اور یوٹرن لیتے ہوئے نہ صرف مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا بلکہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کو ہی تحلیل کر دیا۔ جس سے پی ٹی آئی کو ریلیف ملنے کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں۔ مبصرین کے مطابق بعض یوتھیوں کے ہی مشورے پر حکومت سے مذاکراتی عمل ختم کر کے ایک طرف 8فروری کو ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کیا گیا اور ساتھ ہی آرمی چیف کو الزامات و شکایات پر مبنی خط لکھنے کاشوشا چھوڑا گیا وہاں سے جو جواب آیا وہ بانی کیلئے مزید سبکی کا باعث بنا۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے نہ ہی اس میں سیاسی جماعتوں کی طرح کوئی مشاورت کی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی میں فیصلہ سازی کا کلی اختیار صرف عمران خان کے پاس ہے جبکہ بانی پی ٹی آئی کی نظر میں نہ تو کوئی قابل اعتبار ہے نہ ہی خود مختار ۔ مبصرین کے مطابق عمران خان کی جیل یاترا کے بعد پی ٹی آئی کوئی سیاسی جماعت نہیں رہی بلکہ یہ مختلف گروپوں پر مشتمل ایک یونین کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس وقت یہ جماعت کم از کم سات آٹھ گروپس میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر گروپ دوسرے کا شدید مخالف ہے کیونکہ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ اب تو یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ کئی لوگ اس جماعت کو چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی اپنے خیالوں میں اپوزیشن کا گرینڈ الائنس بنا کر حکومت کی چھٹی کروانے کے سہانے خواب دیکھ رہی ہے۔ تاہم حقیقت میں اس منتشر اور مختلف الخیال گروپس پر مبنی جماعت کے ساتھ الائنس کا کون سوچ سکتاہے۔

دفعہ 144 کی خلاف ورزی، مہر بانو قریشی کارکنان سمیت گرفتار

تجزیہ کاروں کے مطابق یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے جو لوگ گرینڈ الائنس بنانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں وہ کتنے بااختیار ہیں۔ کیا معلوم کل وہ خود بھی ان عہدوں پر برقرار رہیں یا نہ رہیں ۔ اس کے علاوہ کل ان کے فیصلوں کو بانی پی ٹی آئی کی پذیرائی اور منظوری کس حد تک ملتی ہے اس کا بھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ ماضی میں کئی بار پارٹی رہنما کوئی اور فیصلہ لے کر عمران خان کے پاس جاتے ہیں جبکہ عمران خان اس فیصلے کو یکسر بدل دیتے ہیں جیسا کہ ماضی قریب میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کی صورت میں ہوا ہے۔ مبصرین کے مطابق ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ اپوزیسن کے گرینڈ الائنس برائے احتجاجی تحریک کا کونسا گروپ کتنا ساتھ دیتا ہے یہ بھی معلوم نہیں ہےکہ مجوزہ گرینڈ الائنس میں اصل اور قابل ذکر جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) ہےجس کا طرز سیاست مدبرانہ سوچ کا حامل ہے اور وہ توڑ پھوڑ اور بداخلاقی کے سخت خلاف ایک منظم جماعت ہے۔ ایسے میں متضاد سوچ کی حامل جے یو آئی کس طرح پی ٹی آئی کی گاڑی میں سوار ہو سکتی ہے۔

Back to top button