عمران خان کا خط معافی نامہ ہے یا فوج کے خلاف چارج شیٹ؟

عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو لکھے گئے خط پر کوئی مثبت جواب آنے کا امکان اس لیے نہیں کہ موصوف نے اپنی پرانی روش برقرار رکھتے ہوئے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار پھر سے چارج شیٹ کر دیا ہے۔
عمران خان نے آرمی چیف کو لکھے گئے خط میں فوج اور عوام میں بڑھتی ہوئی خلیج کی 6 نکات کی صورت میں نشاندہی کی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا ہے، ہمارے فوجی پاکستان کےلیے قربانیاں دے رہے ہیں، دہشت گردی کےخلاف جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہےکہ پاکستانی قوم اپنی فوج کے پیچھے کھڑی ہو لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے فوج اور عوام میں خلیج دن بدن بڑھتی جارہی ہے، بانی پی ٹی آئی کے مطابق س کی کچھ بنیادی وجوہات ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے آرمی چیف کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام اور فوج کے درمیان فاصلے اور فوج کی بدنامی کو کم کیا جا سکے۔
عمران نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان فاصلوں کی سب سے بڑی وجہ 2024 کے انتخابات میں تاریخی دھاندلی اور عوامی مینڈیٹ کی سرعام چوری ہے جس نے عوام کے غصے کو ابھارا ہے، انکے مطابق جس انداز میں خفیہ ایجنسیاں پری پول دھاندلی اور نتائج کنٹرول کرنے کے لیے سیاسی انجینیئرنگ میں ملوث رہیں، اس نے پاکستانی قوم کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے، عمران کے مطا ق صرف 17 نشستیں جیتنے والی پارٹی کو اقتدار دے کر شہباز نامی اردلی کی حکومت عوام پر مسلط کر دی گئی۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران 2024 کے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے یہ بھول گئے کہ 2018 کے الیکشن میں انہیں وزیراعظم بنوانے کے لیے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی انتخابی دھاندلی کی گئی تھی۔
عمران خان نے آرمی چیف کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ جسطرح 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے ملک میں آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں،اس کےخلاف پاکستانی عوام میں شدید نفرت پائی جا رہی ہے۔ انہوں نے لکھا یے کہ میرے خلاف کیسز ’پاکٹ ججز‘ کے پاس لگانے کے لیے جج ناصر جاوید رانا نے 190 ملین پاونڈز کیس کے فیصلے کو بار بار ملتوی کیا۔ انکے مطابق عدالتوں میں جاری ’کورٹ پیکنگ‘ کا مقصد یہی ہے کہ عمران خان کےخلاف مقدمات من پسند ججز کے پاس لگا کر اپنی مرضی کے فیصلے لیے جا سکیں، اس سب کا ایک اور مقصد انتخابی فراڈ کی پردہ پوشی کرنا ہےتا کہ عدلیہ میں کوئی شفاف فیصلے دینے والا جج نہ ہو۔
عمران خان نے لکھا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر پہلے ہی ریاست قابض ہو چکی یے اور اب پیکا ایکٹ لا کر سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بھی قدغن لگادی گئی ہے، اس سب کی وجہ سے پاکستان کا جی ایس پی پلس سٹیٹس بھی خطرے میں پڑ چکا ہے، انٹرنیٹ میں خلل کی وجہ سے پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کو پونے دو بلین ڈالرز سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے اور نوجوانوں کا کیریئر تباہ ہورہا ہے۔ اپنے خط میں عمران نے مذید لکھا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت پر ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، ہمارے لیڈران اور کارکنان کی چادر چار دیواری کا تقدس پامال کرتےہوئے ایک لاکھ سے زیادہ چھاپے مارے گئے، 20 ہزار سے زیادہ کارکنوں اور سپورٹرز کی گرفتاریاں کی گئیں، انہیں اغوا کیا گیا، پارٹی رہنماؤں کے خاندانوں کو ہراساں کیا گیا اور پی ٹی آئی کو کچلنے کی غرض سے انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے جس نے عوامی جذبات کو مجروح کیا ہے۔
عمران نے خط میں مزید لکھا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی بدولت معیشت کا برا حال ہے جس کی وجہ سے عوام پاکستان چھوڑ کر اپنے سرمائے سمیت تیزی سے بیرون ملک منتقل ہورہے ہیں، معاشی عدم استحکام اپنی انتہا پر ہے، گروتھ ریٹ صفر ہو چکا ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے، عمران خے مطابق کسی بھی ملک میں قانون کی حکمرانی اور آزاد عدلیہ کے بغیر سرمایہ کاری ممکن نہیں ہوتی، جہاں دہشت گردی کا خوف ہو وہاں کوئی سرمایہ کاری کرنےکو تیار نہیں ہوتا، سرمایہ کاری صرف تب آتی ہے جب ملک میں عوامی امنگوں کی ترجمان حکومت قائم ہو اس کے علاوہ سب کلیے بےکار ہیں۔
انہوں نے خط میں لکھا ہے کہ تمام ادارے اپنے فرائض چھوڑ کر صرف سیاسی انتقام کی غرض سے پی ٹی آئی کو کچلنے کا کام کر رہے ہیں، میجر، کرنل سطح کے افراد کی جانب سے عدالتی احکامات کی دھجیاں بکھیرنے کا سلسلہ جاری ہے، عدلیہ کے فیصلوں کو جوتے کی نوک پر رکھا جارہا ہے، جس کی وجہ سے پوری فوج پر نزلہ گر رہا ہے، عمران نے مزید لکھا ہے کہ بحیثیت سابق وزیر اعظم میرا کام اس قوم کی بہتری کےلیے ان مسائل کی نشاندہی ہے جس کی وجہ سے فوج مسلسل بدنامی کا شکار ہورہی ہے، میری پالیسی پہلے دن سے ایک ہی رہی ہے یعنی فوج بھی میری اور ملک بھی میرا، ملکی استحکام اور سلامتی کےلیے ناگزیر ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان کی خلیج کم ہو اور اس بڑھتی خلیج کو کم کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہےاور وہ ہے فوج کا اپنی آئینی حدود میں واپس جانا، سیاست سے خود کو علیحدہ کرنا اور اپنی معین کردہ ذمہ داریاں پوری کرنا اور یہ کام فوج کو خود کرنا ہو گا ورنہ یہی بڑھتی خلیج قومی سلامتی کی اصلاح میں فالٹ لائنز بن جائیں گی۔
عمران خان کی جانب سے کوئی خط نہیں ملا : سکیورٹی ذرائع
تاہم عمران خان اپنے خط میں فوج کے سیاسی کردار کے حوالے سے بھاشن دیتے ہوئے بھول گئے کہ جب وہ جنرل قمر جاوید باجوا کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے تھے تو انہیں فوج کا بوٹ پالشیا قرار دیا جاتا تھا۔ اج وہ یہی الزام شہباز شریف پر لگاتے ہوئے انہیں فوج کا اردلی قرار دیتے ہیں۔