جنگ کے دوران خاموش رہنے والے عمران کی مقبولیت کو بڑا دھچکا

حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی جانب سے خاموشی اختیار کرنے اور ان کے بے لگام سوشل میڈیا بریگیڈ کی جانب سے آرمی چیف عاصم منیر کے خلاف چلائی گئی مہم نے پاکستانی عوام میں بانی پی ٹی آئی کے امیج اور ان کی مقبولیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاک بھارت جنگ نے نہ صرف پاکستانی عوام میں فوج کے خلاف پھیلائی گئی نفرت کو کاؤنٹر کر دیا ہے بلکہ فوجی قیادت کے لیے عوام کے دلوں میں محبت کے جذبات پیدا کر دیے ہیں۔  تجزیہ کاروں کے مطابق پاک بھارت جنگ میں انڈیا کی شکست کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ نئے سیاسی منظر نامے نے اسٹیبلشمنٹ مخالف عمران خان کی مقبولیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

سینیئر صحافی سہیل وڑائچ اتفاق کرتے ہیں کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران دوسرے سیاسی رہنماؤں کی طرح کھل کر بھارت کی مخالفت نہ کرنے پر عمران خان کی مقبولیت کو بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان خود کو ایک بڑا اور اہم لیڈر سمجھتے ہوں گے لیکن پاکستان سے بڑی اور اہم کوئی دوسری چیز نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ بحران کے دوران جس طرح عمران خان نے چپ کا روزہ رکھا اور ان کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے جنرل عاصم منیر پر تنقید کی اس سے بانی پی ٹی آئی کے امیج کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دو برس سے عمران خان کے الزامات کا سامنا کرنے والی فوجی قیادت نے وقت آنے پر ڈٹ کر بطور محافظ اپنا کردار نبھایا اور بھارت کو شکست فاش دی۔ لہٰذا عوام کی بڑی تعداد، بشمول عمران خان کے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز، اب فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے جا کھڑے ہوئے ہیں۔

پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بیشتر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاک فوج کے ہاتھوں انڈیا کو عبرت ناک شکست کے بعد عمران خان سمیت بہت سے سیاسی ایشوز اب پس منظر میں چلے گئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نومبر 2024 کے اسلام آباد دھرنے کی ناکامی سے عمران خان کی سٹریٹ پاور ختم ہو گئی تھی۔ لیکن پاک بھارت جنگ میں انڈیا کی شکست نے تحریک انصاف کی مقبولیت کو اور زیادہ متاثر کیا ہے۔  انکے مطابق گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی ووٹرز اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور پرو اسٹیبلشمنٹ دھڑوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اس تقسیم میں عمران خان کی قیادت میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات کو برتری حاصل رہی تھی۔ لیکن اب صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو گئی ہے۔

روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ سینیئر صحافی خالد قیوم کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ جنگ نے ملک میں بہت کچھ بدل ڈالا ہے، عمران خان کے حمایتی عوام کی بہت بڑی تعداد اب فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حامی ہو چکی ہے، پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اس وقت پاک بھارت کشیدگی کے زیر اثر ہے، عوام کے اندر پاکستان کے لیے محبت جاگی ہوئی ہے۔ اس صورت حال سے پہلے کا پاکستان اور تھا اور بعد کا پاکستان اور ہے، جو کہ بہت مختلف ہے۔ پاک بھارت کشیدگی نے سیاست، لوگوں کی سوچ اور سیاسی حقائق بدل کر رکھ دیے ہیں۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت کا درست اندازہ تو کسی سروے یا بلدیاتی انتخابات میں ہی لگایا جا سکے گا، لیکن جنگ کے دوران جس طرح عوام نے پاک فوج کا ساتھ دیا اسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ فوج مخالف بیانیہ لیکر چلنے والے عمران خان کی مقبولیت میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔

تاہم بی بی سی سے وابستہ سینیئر صحافی ثقلین امام واسطی کا کہنا ہے کہ اب عمران خان کی مقبولیت کا سوال اہم نہیں رہا، اب قومی منظر نامے پر عمران اور اس کی مقبولیت ایک طرف ہو چکی، ساری سیاست بھی پس منظر میں جا چکی ہے، اب پاکستانی سیاست پر پاکستان اور بھارت کی کشیدگی، حب الوطنی، نیشنل ازم اور بھارت دشمنی ہی غالب آ چکی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ تحریک انصاف کے چئیرمین بیرسٹر گوہر خان نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں پاکستان کی حمایت میں بیانات دیے تھے لیکن انہی کی جماعت نے فوج کو اس طرح سپورٹ نہیں کیا تھا جیسے دیگر جماعتوں نے کھل کر کیا۔

ویسے بھی عوام میں عمومی تاثر یہی ہے کہ عمران خان کے خاموشی اختیار کرنے کی وجہ سے حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران پی ٹی آئی کی لیڈرشپ پاک فوج کے ساتھ نہیں تھی۔ اس تاثر کو عوام کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اچھی طرح محسوس کیا۔ تازہ حالات یہ ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور عوام میں فاصلے کم ہو گئے ہیں لیکن عمران خان اور اسٹیبلسمنٹ میں فاصلے بڑھ گئے ہیں، جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مستقبل قریب میں عمران کو غیر معمولی ریلیف ملنے کے امکانات کافی کم ہو گئے ہیں۔

انڈیا کیلئے پاکستانی میزائلز کو جام کرنا یا روکنا ممکن کیوں نہیں رہا؟

سینیئر صحافی خالد قیوم کا کہنا ہے کہ کہ عمران آج بھی نوجوانوں میں مقبول ہیں، اگر وہ کسی طرح جیل سے باہر آ گئے تو وہ لوگوں کو اپنی ارد گرد اکٹھا کرنے کا فن جانتے ہیں۔ وہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس حاصل کرنے کی موثر کوشش کر سکتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے بغیر جیل سے باہر نہیں آسکتے اور حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران انہیں پاک فوج کے ساتھ کھڑا ہو کر اپنے معاملات بہتر بنانے کا جو موقع ملا تھا وہ انہوں نے ضائع کر دیا۔ انکا کہنا ہے کہ عمران کی مقبولیت میں کمی کی وجوہات میں انڈیا کے ساتھ جنگ کے علاوہ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات، غلط تنظیمی فیصلے اور پارٹی کو مؤثر قیادت کا میسر نہ ہونا بھی ہے۔

Back to top button