عمران کے ساتھی ان کی مسلسل احتجاجی کالز سے تنگ کیوں آ گئے ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ وقتی طور پر پاک بھارت جنگ کی وجہ سے عمران خان کا ایشو کچھ روز کے لیے ٹھنڈا ہو گیا تھا لیکن پی ٹی آئی نے ایک بار پھر محاذ گرم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی کی پالیسی ہے کہ ہر وقت خبروں میں رہنا ہے‘ اخبارات‘ ٹی وی‘ وی لاگز‘ سوشل میڈیا‘ ہر جگہ خود کو آگے رکھنا ہے۔ آپ کے مخالفین کو جگہ نہیں ملنی چاہیے‘ بس ہر جگہ آپ ہی آپ ہوں۔ یقینا عمران خان کو ماضی میں اس حکمت عملی کا فائدہ بھی ہوا اور اس کے سیاسی نتائج بھی ان کے حق میں نکلے۔ لیکن اب انہیں اس حکمت عملی کا فائدے کے بجائے نقصان ہو رہا ہے جس کا ادراک نہ خود خان کو ہے اور نہ ہی ان کی ٹیم کو۔ لوگ اب ان کی روز روز کی احتجاجی کالز اور بیانات سے تنگ آنا شروع ہو گئے ہیں۔

اپنی تازہ تحریر میں رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ کنویں سے بچہ نکالنا ہو یا درخت پر چڑھے بچے کو نیچے اتارنا  ہو‘ پی ٹی آئی ایک ہی رسہ استعمال کر رہی ہے۔ تحریک انصاف والے سمجھتے ہیں کہ یہی رسہ سب مسائل کا حل ہے‘ چاہے درخت سے بچے کو رسے کے ذریعے اتارتے وقت اس کی جان ہی چلی جائے۔ ماضی میں جن لوگوں کو روزانہ اخباروں کے صفحہ اول پر رہنے کا شوق تھا یا جن کی تصویریں اور خبریں ہر روز چھپتی تھیں وہ اکثر الیکشن میں ہارتے رہے۔ پاکستان میں وزیراعظم ہو یا وزیر اطلاعات‘ ان کی تصاویر اور خبریں ہمیشہ پہلے صفحے پر چھپتی ہیں۔ شیخ رشید کا حال دیکھ لیں‘ جن کے بغیر ٹی وی سکرین پر شغل نہیں لگتا تھا اور وہ کھڑکی توڑ ہفتہ مناتے تھے‘ ہر اینکر ان کی خوشامد کرتا تھا کہ پروگرام کا وقت دیں۔ ان کا نخرہ اور انداز دیکھنے والا ہوتا تھا۔ لیکن آج کل وہ کہاں ہیں‘ کسی کو شاید یاد بھی نہ ہو۔ وہ روز حکومتیں بناتے اور گراتے تھے۔

رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹروں کا بھی یہی شوق رہا کہ روز پہلا صفحہ ان کی خبروں اور تصویروں سے بھرا ہو۔ پی ٹی وی دور میں تو نو بجے کا خبر نامہ ہی جرنیل سے شروع ہوتا تھا اور جرنیل پر ختم ہوتا تھا۔ پھر نہ وہ جرنیل رہے اور نہ وہ وزیراطلاعات۔ کیا وجہ ہے کہ لوگ اتنی جلدی انہیں بھول جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ لوگ روزانہ ایک ہی چہرہ دیکھ دیکھ کر تھک جاتے ہیں، آج کل تو یہ حالت ہے کہ آپ کوئی بھی فورم چیک کریں‘ وہاں آپ کو سیاسی لیڈروں کے چہرے مسلسل نظر آتے ہیں۔ وہ چوبیس گھنٹے آپ کو کہیں نہ کہیں نظر آتے ہیں۔ آپ ٹی وی چھوڑ کر ٹویٹر پر جائیں‘ وہاں بھی وہ لوگ موجود ہوں گے اور یوٹیوب پر بھی۔ اگر آپ نے ان کو ایک ٹی وی شو پر دیکھ لیا اور شکر کیا کہ چلیں آج کا کوٹہ پورا ہوگیا تو آپ غلطی پر ہیں۔ وہ ایک دن میں چار چار شوز پر موجود ہوتے ہیں۔ کئی تو ایسے ہیں جو صبح ناشتہ کر کے گھر سے نکلتے ہیں اور پھر دن بھر ٹی وی چینلز پر ہی پائے جاتے ہیں۔

رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ جب عمران خان اپنے محبوب عثمان بزدار کا ذکر کرتے تھے تو عقیدت اور احترام سے ڈوب کر کرتے تھے، جو بزدار کی تعریف نہیں کرتا تھا وہ اس سے سخت ناراض ہوتے تھے۔

ایک مرتبہ جب ندیم افضل چن سے پوچھا گیا کہ انہوں نے عمران خان کی کابینہ سے استعفیٰ کیوں دیا؟ انہوں نے جہاں دیگر کچھ وجوہات بتائی تھیں وہاں ایک مزے کی یہ بات بھی بتائی تھی کہ عمران خان اپنے وزیروں کو ہر کابینہ اجلاس میں کہتے کہ باہر جا کر ٹی وی شوز میں عثمان بزدار کی تعریفیں کرو۔ ان سے بزدار کی تعریف نہیں ہوتی تھی‘ اس لیے کابینہ سے نکل گئے۔ یہ سلسلہ صرف عمران خان تک یا ان لیڈروں تک محدود نہیں جو ٹی وی شوز میں مسلسل خوشامد کرتے اور اپنے لیڈروں کو مہان ہستی بنا کر پیش کرتے تھے۔

آرمی چیف اور ISI چیف نے صدر زرداری کو دبئی جانے سے کیوں روکا؟

سینیئر صحافی کے مطابق میں حیران ہوتا ہوں کہ جو لوگ مسلسل اپنی تعریف یا خوشامد سنتے ہیں‘ کیا وہ بور نہیں ہوتے؟ ان کے کان تھک نہیں جاتے؟ مانا کہ تعریف اور خوشامد انسانوں کو اچھی لگتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کتنی تعریف اور کتنی خوشامد؟ اور کب تک؟ کیا ان کا دل نہیں کرتا کہ کوئی ایسا دن ہو جب ان کی کوئی تصویر یا بات کسی جگہ نظر نہ آئے؟ ان سب ہنگاموں سے دور کوئی ایک دن صرف ان کا اپنا ہو اور جب وہ ٹی وی یا سوشل میڈیا دیکھیں تو وہاں سے غائب ہوں۔ میں حیران ہوتا ہوں یہ کس حد تک دوسروں کی تعریف کے محتاج ہوتے ہیں اور ان میں مقابلہ ہوتا ہے کہ کون زیادہ خوشامد کرسکتا ہے۔

Back to top button