عمران کی فوج سے ریلیف ملنے کی امید پوری کیوں نہیں ہونے والی؟

اڈیالہ جیل میں بند عمران خان کو 14 برس قید با مشقت کی سزا ہو جانے کے باوجود تحریک انصاف کی قیادت کو یقین ہے کہ حکومت سے جاری مذاکرات کے نتیجے میں بانی پی ٹی آئی کو ریلیف مل جائے گا، لیکن دوسری جانب راولپنڈی اور اسلام آباد کے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو 14 برس قید کی سزا دراصل ایک واضح پیغام ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو کسی بھی صورت کوئی ریلیف دینے کو تیار نہیں۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف اور حکومت کے مابین مذاکرات کے تین راونڈز مکمل ہونے کے باوجود دونوں فریقین کسی نتیجہ خیز پیش رفت سے کوسوں دور ہیں۔
کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور حکومت کے مذاکرات تب تک کامیاب نہیں ہوں گے جب تک پس پردہ جاری بات چیت میں پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کسی متفقہ نتیجے پر نہیں پہنچ جاتے۔ تاہم راولپنڈی میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں اور تحریک انصاف کی قیادت کے مابین کسی قسم کے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے اور اس حوالے سے تمام کہانیاں فرضی ہیں۔
عمران خان کے سابقہ بہنوئی اور حال ہی میں عمر قید کی سزا پانے والے حسان نیازی ایڈووکیٹ کے والد حفیظ اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کی خبریں صرف دکھاوے کی حد تک ہیں۔ اصل معاملات فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے مابین جاری پس پردہ مذاکرات میں طے ہونے ہیں۔ پہلے وہاں فیصلے ہوں گے اور بعد میں ظاہری مذاکرات میں پس پردہ طے ہونے والے فیصلے کا اعلان ہو گا، اس کے بعد ان فیصلوں پر عمل درآمد کی باری آئے گی۔ انہوں نے توقع ظاہر کہ مذاکرات کے نتیجے میں صورتحال بہتر ہو گی۔ عمران خان بھی جیل سے باہر نکل سکتے ہیں، اور زیر حراست پی ٹی آئی کارکنان کی رہائی بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ ان نوازشات کے بدلے میں تحریک انصاف اور عمران خان فوجی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی مخالفت میں کمی کر سکتے ہیں۔
تاہم اسلام اباد میں فیصلہ ساز حلقوں کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بار بار واضح کر چکی ہے کہ عمران کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے چونکہ فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے اور اگر موصوف نے مذاکرات کرنے ہیں تو منتخب حکومت سے ہی کرنا ہوں گے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مذاکرات سے صاف انکار کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت حکومت کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہو گئے تھے۔ یہ مذاکرات ابھی جاری ہیں اور دیکھنا ہے کہ ان کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ تاہم ان حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات کے نتیجے میں عمران خان کو کوئی این آر او ملنا یا کوئی ریلیف فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فوجی قیادت بار بار واضح کر چکی ہے کہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی اور اس پالیسی میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
تاہم عمران خان کے لیے ہمدردیاں رکھنے والے تجزیہ کار حبیب اکرم کا خیال ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کی اب تک ناکامی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کمزور ہے اور اس کے پاس پی ٹی آئی کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ فوج کا نام لیے بغیر انکا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت جن لوگوں کے سہارے کھڑی ہے، انکی طرف سے سامنے آنے والے فیصلوں کے بعد ہی کوئی حتمی نتیجہ سامنے آئے گا۔ حبیب اکرم کو اب بھی یقین ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ سنجیدہ بات چیت کر رہی ہے۔ انکے مطابق بظاہر مخالفانہ بیان بازی کے باوجود تحریک انصاف کی قیادت مسلسل فوجی اسٹیبلشمینٹ سے رابطے میں ہے۔ انکا کہنا تھا کہ عمران خا جلد انتخابات کے خواہاں ہیں جبکہ فوج موجودہ حکومت کو تسلیم کر کے آگے بڑھنے کی متمنی ہے۔ اسکے علاوہ مسلم لیگ نون کا حکومت چھن جانے کا خوف بھی انہیں مذاکرات کی کامیابی میں رخنے ڈال رہا ہے۔ ان کے بقول جس طرح جنگ ہونے سے وار اکانومی کو فائدہ ہوتا ہے اس طرح ملک میں کشیدگی بڑھنے سے بھی بعض لوگوں کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دھاندلی کے نتیجے میں بننے والے موجودہ سیٹ اپ پر سوالیہ نشانات ہیں۔ ایسے میں ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا۔
آرمی چیف سے ملاقات کے بعد حکومت اور PTI مذاکرات میں ڈیڈ لاک
تا ہم سینیئر صحافی خالد قیوم کا کہنا ہے کہ حبیب اکرم کے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف کے مابین پس پردہ رابطوں کے دعوے دیوانے کا خواب ہیں۔ ان کے مطابق اگر دونوں فریقین میں رابطے ہوتے تو عمران خان کو 14 برس کی سزا نہ ہوتی اور وہ مسلسل فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ لے کر نہ چل رہے ہوتے۔ عمران کا فوجی قیادت کے خلاف بیانیہ اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی کالیں دراصل اس حقیقت کو ظاہر کرتی تھیں کہ وہ ڈیل کرنے کے لیے فوج پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے، تاہم اب وہ فوج کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے چونکہ ان کی لانگ مارچ کی دھمکیاں بھی 26 نومبر کو پنکچر ہو چکیں جس کے بعد انہیں 14 برس قید کی سزا بھی ہو گئی۔