مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کے لیے عمران نے رہائی کی گارنٹی مانگ لی
تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین شروع ہونے والے مذاکراتی عمل میں تعطل کی بنیادی وجہ عمران خان ہیں جن کے ذہن میں اچانک یہ خیال آ گیا ہے کہ حکومت سے مذاکرات شروع کرنے کا مطلب موجودہ حکومت اور 8 فروری کے الیکشن نتائج کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کے لیے اپنی رہائی کے حوالے سے بھی گارنٹی مانگ لی ہے۔
یاد رہے کہ 19 دسمبر کو حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کے پہلے راؤنڈ کے بعد دوسرا دور 2 جنوری سے شروع ہونا تھا جس کے دوران تحریک انصاف نے اپنے مطالبات تحریری صورت میں حکومت کے حوالے کرنے تھے۔ تاہم ایسا نہیں یو پایا کیونکہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے والے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو بظاہر مذاکرات کا پورا مینڈیٹ نہیں ملا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب صورت حال یہ ہے کہ دونوں فریقین کے مابین بیک چینل مذاکرات بھی رک چکے ہیں جن کے نتیجے میں مابین مذاکراتی عمل شروع ہوا تھا۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے دعوی کیا ہے کہ 19؍ دسمبر 2024 کو دونوں فریقین کی پہلی ملاقات کے بعد سے دونوں کے مابین دوبارہ کوئی بیک چینل میٹنگ نہیں ہوئی۔ بظاہر مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان اپنی مذاکراتی ٹیم کو پورا مینڈیٹ دینے پر آمادہ نہیں خصوصا جب کہ حکومت نے یہ شرط رکھ دی ہے کہ مذاکراتی عمل کے دوران کوئی این آر او ڈسکس نہیں ہوگا۔ دوسری جانب حکومت کو بھی اس بات کا یقین نہیں کہ جن لوگوں سے اس کے مذاکرات ہو رہے ہیں وہ معاہدے کے لیے کوئی کمٹمنٹ دینے کی پوزیشن میں ہیں۔
یاد رہے کہ دونوں فریقین کے مابین گزشتہ اجلاس میں حکومت کی دو اہم شخصیات نے شرکت کی تھی جن میں ایک وزیر اور ایک عہدیدار شامل تھا۔ عمران خان کی تحریک انصاف کی نمائندگی پارٹی کے اہم رہنما نے کی تھی۔ یہ بیک چینل رابطے دراصل ایس سی او سربراہی اجلاس کے موقع پر اور تحریک انصاف کے 24؍ نومبر کے اسلام آباد احتجاج کے موقع پر فعال ہوئے تھے۔ تحریک انصاف نے ایس سی او اجلاس کے موقع پر ڈی چوک پر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ تاہم دونوں فریقین کے درمیان بیک چینل رابطوں کے بعد پمز اسپتال کے ڈاکٹروں کو جیل میں قید پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی اجازت ملی تھی۔
سینیئر صحافی انصار عباسی کے مطابق تحریک انصاف چاہتی تھی کہ عمران کا طبی معائنہ شوکت خانم اسپتال کے اپنے ڈاکٹر سے ہو لیکن بیک چینل بات چیت میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ اگر پمز کے ڈاکٹروں کو عمران کے معائنے کی اجازت دی گئی تو اُس صورت میں بھی تحریک ایس سی او اجلاس کے موقع پر ڈی چوک احتجاج ختم کردے گی۔ بعد میں یہ بیک چینل رابطے اس وقت متحرک ہوئے جب تحریک انصاف نے 24؍ نومبر کو اسلام آباد مارچ کی آخری کال کا اعلان کیا۔ انہی بیک چینل مذاکرات کی بنیاد پر تحریک انصاف کے کچھ رہنمائوں بشمول علی امین گنڈا پور، بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف کو عمران خان سے ملاقات کی سہولت فراہم کی گئی لیکن پی ٹی آئی کے بانی نے اُس وقت اپنی فوراً رہائی پر اصرار کیا۔
عمران خان نے اسلام آباد کے مضافاتی علاقے سنگجانی میں 26 نومبر کا احتجاجی مارچ روکنے کیلئے حکومت کی تجویز سے بھی اتفاق کیا تھا۔ تاہم، بشریٰ بی بی نے ڈی چوک تک مارچ کی قیادت کی اور معاملات 26؍ نومبر کے واقعات پر منتج ہوئے۔ 26؍ نومبر کے افسوسناک ناک واقعات ان بیک چینل رابطوں کیلئے شدید جھٹکا تھے کیونکہ بحیثیت فریق حکومت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تحریک انصاف کی دوسرے درجے کی قیادت بالکل بے بس ہے اور ان کی بات میں کوئی وزن نہیں، حکومت اس نتیجے پر بھی پہنچی کہ عمران خان اپنی اہلیہ کے سوا کسی اور کی نہیں سنتے۔
دونوں فریقین کے مابین موجودہ مذاکراتی عمل کا اغاز عمران خان کی منظوری سے ہوا تھا جو اب ہر صورت جیل سے باہر انا چاہتے ہیں۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ہائی لیول بیک چینل ملاقات ہوئی۔ تاہم، اس ملاقات میں پی ٹی آئی والوں کو بتایا گیا کہ انہیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کشیدگی اور محاذ آرائی کی سیاست جاری رکھنا چاہتے ہیں یا واقعی مفاہمت چاہتے ہیں۔ مذاکرات کے لیے رابطہ کرنے والے تحریک انصاف کے لیڈرز سے کہہ دیا گیا تھا کہ اگر وہ تشدد اور احتجاج سے باز نہیں آئیں گے اور فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت پر تنقید کرنے کے علاوہ معیشت کو نقصان پہنچانے کی پالیسی جاری رکھیں گے تو ان بیک چینل رابطوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، پی ٹی آئی والوں کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اگر وہ مفاہمت کا راستہ چنیں گے تو پھر کسی بھی مفاہمتی ڈیل کے لیے مذاکرات کرنے والوں کے پاس پورا مینڈیٹ ہونا ضروری ہے۔ لیکن بظاہر ایسا نظر نہیں آتا اور اسی وجہ سے حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہے۔
کیا عمران خان جیل سے نکلنے کے لیے زبان بندی کا معاہدہ کر لیں گے؟
تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق اڈیالہ جیل میں بند عمران خان مذاکراتی عمل میں شریک پارٹی رہنماؤں پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں اور ان کا اصرار ہے کہ ہر مذاکراتی راؤنڈ کے بعد انہیں بریفنگ دے کر آئندہ کے لیے رہنمائی حاصل کی جائے۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان مذاکراتی عمل میں آگے بڑھنے پہلے یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ انہیں جیل سے ہر صورت نکال دیا جائے گا۔ دوسری جانب حکومت کا موقف ہے کہ اس کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں چونکہ عمران خان کے کیسز کا فیصلہ عدلیہ نے کرنا ہے۔