کبھی ہار نہ ماننے والے عنایت حسین بھٹی حقیقت میں کون تھے؟

عنایت حسین بھٹی ایک ایسے فنکار اور دانشور تھے جن کی زیست کا ہر پَنا انفرادیت لیے ہوئے ہے۔ وہ گجرات سے لاہور یوں تو قانون کی تعلیم حاصل کرنے آئے تھے مگر ان کے رگ و پے میں ایک ایسا فنکار پنہاں تھا جس نے پنجاب دھرتی کے ہر رنگ کو اپنے اندر سمویا ہوا تھا۔وہ لوک گلوکار، اداکار، ہدایت کار، فلم ساز، کالم نگار، سیاست دان، دینی رہنما اور مصنف کے طور پر اپنے ہر کردار میں یکتا تھے۔ وہ ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے جس نے پنجاب کی لوک روایت اور ثقافت کو آگے بڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

ہندوستان اور پاکستان کی فلمی صنعت میں دو فنکار ہی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اداکاری اور گلوکاری میں ایسے جوہر دکھائے کہ لوگ یہ سوال کرنے پر مجبور ہو گئے کہ عنایت حسین بھٹی ایک بڑے لوک گلوکار تھے یا اداکار؟ یہ سوال آنجہانی گلوکار اور اداکار کشور کمار کے حوالے سے بھی کیا جاتا ہے۔

دونوں فنکاروں کی فنی قامت سے قطع نظر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عنایت حسین بھٹی نے اپنی مٹی، اپنی پنجاب دھرتی سے وفا کی ایسی مثال قائم کی جس نے اس فنکار کو دوسروں سے انفرادیت ادا کی۔

یہ فنکار چناب کنارے آباد سوہنی کے شہر گجرات میں 12 جنوری 1928 کو پیدا ہوا۔ یہ چناب کے بہتے پانیوں کی تاثیر کا اثر تھا یا کچھ اور۔ وکالت کا ایک طالب علم فن کے دریا میں یوں غوطہ زن ہوا کہ وہ پنجاب کی لوک روایت کا معتبر ترین حوالہ بن گیا۔\

’عنایت حسین بھٹی کے 36 برسوں پر محیط گلوکاری کے کیریئر میں انہوں نے 160 سے زیادہ فلموں میں ساڑھے تین سو کے قریب گیت گائے جن میں سے تین چوتھائی پنجابی زبان میں تھے۔انہوں نے 1949 سے لے کر 1984 تک یعنی 36 برس فلموں کے لیے مسلسل نغمہ سرائی کی جو ایک ریکارڈ ہے۔

عنایت حسین بھٹی نے وائی ایم سی اے ہال میں پہلا ڈرامہ سٹیج کیا۔ 1949 میں عنایت حسین بھٹی کی قسمت کا تارہ اُفق پر طلوع ہوا۔  فلم ’پھیرے‘کیلئے گائے گئے گیتوں سے عنایت حسین بھٹی پاکستان کے اولین سپرسٹار پلے بیک سنگر کے طور پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔1953 میں ریلیز ہونے والی فلم ’شہری بابو‘ عنایت حسین بھٹی کے کیریئر میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ عنایت حسین بھٹی پر اس فلم میں ان ہی کی آواز میں ’بھاگاں والیو نام جپو مولا نام، نام مولا نام‘ گیت فلمایا گیا جس نے غیرمعمولی شہرت حاصل کی اور یوں عنایت حسین بھٹی کے لیے بند دروازے کھلتے چلے گئے۔

ان کے فلمی کیریئر میں اگلی فلم شباب کیرانوی کی ’جلن‘ تھی جو 1955 میں ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔ ان کی مگر اسی سال ریلیز ہونے والی فلم ’ہیر‘ میں انہوں نے رانجھے کا کردار اس خوبصورتی سے ادا کیا جو ہمیشہ کے لیے اَمر ہو گیا۔عنایت حسین بھٹی نے اس کے بعد بھی متعدد ہٹ گانے گائے،1989 میں عنایت حسین بھٹی کی آخری فلم عشق روگ ریلیز ہوئی۔ انہوں نے مجموعی طور پر 54 فلموں میں کام کیا جن میں سے صرف دو ہی اُردو زبان میں تھیں۔

عنایت حسین بھٹی کا اپنی ماں بولی پنجابی سے لگائو غیرمعمولی تھا۔ انہوں نے پنجابی زبان و ادب کی ترقی کے لیے ضیا شاہد اور مسعود کھدرپوش کے ساتھ مل کر ہفت روزہ جریدہ ’کہانی‘ شروع کیا جبکہ ایک معروف اخبار کے لیے ’چیلنج‘ کے نام سے کالم بھی لکھتے رہے۔انہوں نے 1991 میں پی ٹی وی کے لیے صوفیائے کرام، ان کی درگاہوں اور تعلیمات کے حوالے سے پروگرام ‘چانن ای چانن‘ کی میزبانی شروع کی جو ازاں بعد ‘اجالا‘ اور ’تجلیوں‘ کے نام سے جاری رہا۔عنایت حسین بھٹی کی ذاکر کے طور پر بھی منفرد پہچان تھی جب کہ وہ پیپلز پارٹی کے جلسوں میں بھی تقاریر کیا کرتے تھے۔دھرتی کا یہ ہمہ جہت فنکار 31 مئی 1999 کو چل بسا مگر انہوں نے پنجاب کی ثقافت کے ہر رنگ کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے گیت آج بھی کانوں میں رَس گھولتے ہیں۔وہ اس دھرتی کے ایک ایسے فنکار تھے جس نے ہار ماننا سیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ حقیقت میں اس دھرتی کے فنکار تھے جس کا ہر رنگ ان کے فن میں جھلکتا ہے۔

Back to top button