انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈالنا کب چھوڑیں گے ؟

معروف صحافی رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے پاس مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے کئی شاندار مواقع آئے لیکن کچھ پاکستان نے ضائع کر دیے تو کچھ بھارت نے۔ آج حالت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر شروع ہونے والی دشمنی آج دونوں ملکوں کو ایک خطرناک جنگ کے موڑ پر لے آئی ہے۔ پچھلے 78 برس میں دونوں ہمسایوں نے ہاتھوں سے جو گانٹھیں لگائی ہیں اب وہ دانتوں سے بھی نہیں کھل پا رہیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ کبھی کبھار حیرانی ہوتی ہے کہ اس خطے کے ڈی این اے میں ایسا کیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کچھ دن آرام سے گزارتے ہیں اور پھر اچانک ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی شکایات ہیں‘ ایک دوسرے سے گلے شکوے ہیں۔ ماضی میں متعدد مواقع آئے جب ہم باہمی مسائل حل کر سکتے تھے لیکن ہر بار ‘ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘ والا معاملہ درپیش رہا۔ دراصل کشمیر کا مسئلہ 1950ء کی دہائی میں بھارت کیلئے ”اٹوٹ انگ‘‘ نہیں بنا تھا۔ اس وقت بھارتی قیادت ‘کچھ لو اور کچھ دو‘ فارمولے پر بات کرنے کی خواہشمند تھی۔ بھارت کی ایک اہم شخصیت نے پاکستانی وفد کے ارکان کو کہا کہ اگر پاکستان حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ پر سے اپنا دعویٰ واپس لے لے تو بھارت کی جانب سے کشمیر پر پاکستان کو رعایت دی جا سکتی ہے۔
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ آج کی نئی نسل کو یہ یاددہانی کرانا ضروری ہے کہ پاکستان کے قیام کے وقت ہندوستان کی 562 ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کو چن لیں۔ جونا گڑھ اور حیدرآباد (دکن) نے پاکستان کا انتخاب کیا تھا۔ اگرچہ حیدرآباد کے نظام نے پہلے یہ کوشش کی تھی کہ کسی طرح اپنا الگ ریاستی تشخص قائم رکھیں۔ جونا گڑھ کے نواب اور دیوان نے قائداعظم سے ملاقات کر کے اپنی ریاست کو پاکستان میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ ان دونوں ریاستوں کا یہ فیصلہ تسلیم نہ کیا گیا اور بھارتی وزیرداخلہ پٹیل نے فوج کی مدد سے ان پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ آج کی نئی نسل میں بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ جونا گڑھ ریاست کا آخری دیوان؍ وزیراعظم سر شاہنوار بھٹو تھے جو پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے والد تھے۔
رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ پاکستان نے بڑے عرصے تک حیدرآباد اور جونا گڑھ پر اپنا دعویٰ رکھا۔ لیکن پھر دھیرے دھیرے ہمارے ہاں دکن اور جونا گڑھ کا ذکر کم ہوتا گیا اور بات صرف مسئلہ کشمیر تک محدود ہو کر رہ گئی۔ آج کوئی نہیں جانتا کہ جیسے ہم کشمیر کی طرح کبھی ہم حیدر آباد اور جونا گڑھ پر بھی پاکستانی ملکیت کا دعوی رکھتے تھے۔ کشمیر پر ہم نے خاموشی اسلئے اختیار نہیں کی کیونکہ وہاں سے ہمارے دریائوں کا پانی آتا ہے اور وہاں کی اکثریتی آبادی بھی مسلمان ہے جبکہ یہ جغرافیائی طور پر بھی پاکستان سے ملحق ہے۔
اگرچہ ہندوستان کی آزاد ریاستوں کا الحاق اس بنیاد پر ہونا تھا کہ کس ریاست میں ہندوئوں یا مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اسی کے مطابق وہ بھارت یا پاکستان میں شامل ہو سکتی تھیں۔ ان ریاستوں کو بھی یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ کسی ایک کا انتخاب کر لیں۔ کشمیر کے راجہ نے مسلم اکثریتی آبادی کے باوجود بھارت کا انتخاب کیا تو ہمارے ہاں شدید ردِعمل آیا کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے لہٰذا وہی اصول لاگو کیا جائے کہ اکثریتی آبادی کس کی ہے۔ یوں پاکستان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح جونا گڑھ میں اکثریت ہندو تھے مگر وہاں کے نواب نے پاکستان کا انتخاب کیا تھا۔ جونا گڑھ اور حیدر آباد جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ نہیں مل سکتے تھے لہٰذا بھارت نے فوج کشی کر کے ان پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان عالمی سطح پر یہ مسئلہ اٹھاتا رہا لیکن دھیرے دھیرے یہ مسئلہ ہماری ترجیحات اور بیانات سے غائب ہوتا چلا گیا۔
رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ بھارت کشمیر کے مسئلے کو حیدر آباد اور جونا گڑھ کے تنازع کے پس منظر میں حل کرنے کو تیار تھا۔ لیکن جب ایک بھارتی افسر یہ پیغام لے کر پاکستان آیا تو اسے حوصلہ افزا جواب نہیں ملا اور یوں یہ معاملہ ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ آج تک حیدر آباد ملا نہ جونا گڑھ جبکہ کشمیر پر ہم چار جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت کی پاکستانی قیادت نے سوچا ہو کہ اگر ہم نے حیدر آباد اور جونا گڑھ کے بدلے کشمیر لے لیا تو پھر ہم پر یہی الزام لگے گا کہ ہم نے قیام پاکستان کے بنیادی تصور کا سودا کر لیا ہے۔ یہی خوف آج بھی ہے‘ جس نے پاکستان کو بھارت کے ساتھ اہم مسائل پر مشکل فیصلے لینے سے روک رکھا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بھارت سے زیادہ اُس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کیلئے اہم تھا جو خود ایک کشمیری تھے۔ وہ کسی صورت اپنا آبائی وطن پاکستان کو نہیں دینا چاہتے تھے‘ جہاں انہیں ویزہ لے کر جانا پڑتا۔ بھارت میں اکثر کہا جاتا ہے کہ اگر تقسیم کے وقت بھارت کا وزیراعظم نہرو کی جگہ سردار پٹیل ہوتا تو پاکستان اور بھارت میں کبھی کشمیر کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔
پاکستان ایئرسپیس کی بندش کےبعدبھارتی ایئرلائنزدیوالیہ ہونےکےقریب
اُس دور کی اکثریت یہی سمجھتی تھی کہ کشمیر قدرتی طور پر پاکستان کیساتھ ملحق ہے اور اسکا بھارت کیساتھ الحاق ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ان قوتوں کا خیال تھا کہ کشمیر کے بجائے انہیں باقی ریاستوں پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان اور بھارت میں کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا۔ کشمیری راجا نے وزیراعظم نہرو سے فوج بھیجنے کے درخواست کی تو اس پر بھارتی کابینہ کے اجلاس میں کافی بحث ہوئی۔ نہرو کسی صورت اتنی جلدی پاکستان کیساتھ جنگ نہیں لڑنا چاہتے تھے لہٰذا وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے، تاہم وہ اپنا آبائی وطن بھی چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ جب کابینہ اجلاس میں بحث طول پکڑ گئی تو وزیر داخلہ سردار پٹیل نے زور سے کہا: وزیراعظم صاحب! آپ کشمیر لینا چاہتے ہیں یا نہیں‘ فوراً فیصلہ کریں۔ اس پر نہرو نے فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا، لیکن اس سے پہلے کشمیر کے راجا نے انڈیا کیساتھ الحاق کا معاہدہ کر لیا تاکہ بھارت کے پاس اپنی فوج کشمیر میں داخل کرنے کا قانونی جواز موجود ہو۔ اُس وقت پاکستانی لشکر‘ جو زیادہ تر قبائلیوں پر مشتمل تھا‘ وہ بارہ مولہ تک پہنچ چکا تھا لیکن وہ سرینگر پہنچنے کے بجائے وہیں مقامی لوگوں کے گھروں میں گھس کر سامان ٹرکوں پر لادنے میں مصروف ہو گیا۔ ادھر بھارت نے سرینگر ایئرپورٹ پر اپنے فوجی دستے اتارنا شروع کر دیے۔ یوں پاکستانی قبائلی لشکر کی لوٹ مار کی وجہ سے کشمیر فتح نہ ہو سکا اور دونوں ملکوں کے مابین ایک ایسی کشمکش شروع ہو گئی جو آج 78 برس بعد بھی جاری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب 1965ء میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب خان کو قائل کیا کہ اس وقت لوہا گرم ہے اور کشمیر کے لوگ پاکستان کا ساتھ دیں گے اور کشمیر آزاد کرانے کا یہ بہترین وقت ہے تو اس وقت کمانڈوز کی مخبری کرنے والے مقامی لوگ ہی تھے جن کے ذہنوں میں 1948ء کی لوٹ مار تازہ تھی۔ وہ ڈر گئے تھے کہ انکے ساتھ وہی سلوک دوبارہ ہو گا۔ یوں وہ کمانڈو آپریشن ناکام ہو گیا اور بڑی تعداد میں ہمارے جوان شہید ہو گے۔