پاکستان نے انڈیا کو فوجی شکست کے ساتھ سفارتی شکست کیسے دی ؟

حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران بھارت کو نہ صرف دفاعی محاذ پر پاکستان کے ہاتھوں شکست فاش ہوئی بلکہ اسے سفارتی محاذ پر بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لہٰذا بھارت کی سفارتی ناکامی کے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن پر بی بی سی اردو نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔

سات مئی کی صبح کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی۔ اس کی وجہ چھ مئی کی رات کو انڈیا کی پاکستان کے اندر فوجی کارروائی تھی جس کی خبر صبح ہوتے ہی جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کی اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر اگلے چار روز تک حملے کرتے رہے۔

ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ تھا کہ دنیا کے دیگر طاقتور ممالک اس کشیدگی پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ چین نے کھل کر کہا کہ وہ پاکستان کی خود مختاری کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ ترکی نے بھی پاکستان کا ساتھ دیا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ چین نے پاکستان کی خودمختاری کے بارے میں جو کچھ کہا، ایسا کسی اور ملک نے انڈیا کے لیے نہیں کہا۔

اسرائیل نے کہا کہ انڈیا کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ لیکن اسرائیل کے مقابلے میں چین بہت بڑا ملک ہے اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت بھی۔ انڈیا کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے کسی پر انحصار نہیں کرتا، لیکن خارجہ پالیسی یا سفارت کاری کی کامیابی شاید اس میں بھی نظر آتی ہے کہ بحران کے وقت کتنے ممالک آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انڈیا کی خارجہ پالیسی پر اس وقت مزید سوالات اٹھنے لگے جب تیسرے ملک امریکہ کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور وہ بھی مکمل طور پر ایک حکم نامے کی طرح۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کو جنگ بندی کا پہلے سے علم تھا اور یہ امریکہ ہی تھا جس نے انڈیا کے عوام کو اس کے متعلق آگاہ کیا، نہ کے ان کی اپنی حکومت نے۔ دوسری جانب ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں دہشت گردی کا ذکر تک نہیں کیا۔ ٹرمپ نے انڈیا اور پاکستان کو برابری پر کھڑا کردیا۔

انڈیا مسئلہ کشمیر پر کسی کی ثالثی قبول نہیں کرتا لیکن امریکہ نے واضح طور پر کہا کہ اس نے جنگ بندی کی ہے اور پاکستان نے بھی اسے قبول کیا ہے۔ تاہم انڈیا نے اپنے ردعمل میں اسے دو طرفہ قرار دیا اور امریکہ کا نام تک نہیں لیا۔

انڈیا بھی اپنا کسی طرح کا موازنہ پاکستان سے نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن اس سارے معاملے میں ایسا ہی ہوا۔ سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور پہلے انڈیا آئے اور پھر پاکستان گئے۔ ایران کے وزیر خارجہ بھی پہلے پاکستان گئے اور پھر انڈیا پہنچے۔ اسی طرح امریکہ نے بھی انڈیا اور پاکستان کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا خود کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی کوشش میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں کیا مودی سرکار کی سفارت کاری یا خارجہ پالیسی ناکام کیوں رہی؟ انڈیا کے معروف انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کی سفارتی امور کی ایڈیٹر سوہاسینی حیدر نے سابق مرکزی وزیر کپل سبل کے ایک شو میں کہا کہ ’تمام عالمی رہنما جنھوں نے انڈیا اور پاکستان سے بات کی، ان کی پوری توجہ کشیدگی کو کم کرنے پر تھی نہ کہ دہشت گردی پر۔ انڈیا چاہتا ہے کہ اس کا موازنہ پاکستان سے نہ کیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ امریکہ کی انڈیا کے ساتھ تجارت کا حجم 140 ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ صرف 10 ارب ڈالر۔ لیکن ٹرمپ نے دونوں کو ایک ہی پیمانے پر رکھا ہے۔‘

عمران کے ساتھیوں کو انڈیا کے خلاف جیت ہضم کیوں نہیں ہو رہی ؟

پاکستان مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر لانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ انڈیا اسے ہر قیمت پر روکنا چاہتا ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار پاکستان مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر لانے میں کامیاب ہوا ہے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر پر تیسرے فریق کی ثالثی یا اقوام متحدہ کی مداخلت کی وکالت کرتا رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر زیر بحث لانا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پہلی مرتبہ صدر بننے پر مودی نے ٹرمپ کے ساتھ جو قربت ڈالی تھی اب اس میں واضح کمی دکھائی دیتی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ بھارت کے خلاف پاک فوج کی کامیابی اور خطے میں چین کا عروج پرانے عالمی نظام کو چیلنج کر رہا ہے۔ ایسے میں بہتر سفارت کاری کے ذریعے نئے ورلڈ آرڈر میں اپنی جگہ بنانا بھارت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔

Back to top button