آئی ایس آئی وفد کے بنگلہ دیشی دورے سے انڈیا پریشانی میں مبتلا

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے سویلین اور فوجی تعاون پر انڈیا شدید تشویش کا شکار ہو گیا ہے۔ بھارتی میڈیا پچھلے کچھ ہفتوں سے مسلسل اس ڈویلپمنٹ کو رپورٹ کر رہا ہے کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین فوجی اور انٹیلی جنس تعاون میں اضافہ ہو گیا ہے۔
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا کے مقامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ایک وفد نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا ہے تاکہ دونوں ممالک کے مابین انٹیلیجنس تعاون کو بڑھاوا دیا جا سکے۔ تاہم بنگلہ دیش کے سرکاری خبر رساں ادارے نے ابھی تک اس خبر کی تصدیق نہیں کی کہ ڈھاکہ کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفد کی سربراہی آئی ایس آئی کے سربراہ کر رہے تھے۔ لیکن بھارت میں اس حوالے سے تشویش بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ انڈین میڈیا میں ایسی تشویش بھری خبروں نے تب زور پکڑا جب رواں مہینے بنگلہ دیشی فوج کا ایک وفد پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن کی قیادت میں پاکستان پہنچا اور ان کی پاکستان میں عسکری قیادت سے ملاقاتیں ہوئیں۔
اس دورے کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے وفد نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشماد مرزا اور پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل ظہیر احمد بابر سندھو سے بھی ملاقات کی تھیں۔ حال ہی میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین فوجی تعاون بارے پوچھے گے سوال پر انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ جو بھی سرگرمیاں ہمارے پڑوس میں، خطے میں یا انڈیا کے اردگرد ہوتی ہیں، ہم ہمیشہ ان پر نظر رکھتے ہیں اور خاص کر ایسی سرگرمیاں جس کا تعلق ہماری قومی سلامتی سے ہو۔ ہمیں جس طرح کے قدم اٹھانے ہیں، وہ ہم اٹھائیں گے۔‘
یاد رہے کہ تاریخی طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں جسکی بنیادی وجہ 1971 میں پاکستانی فوج کا آپریشن اور مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی تھی۔
گذشتہ برس اگست میں پُرتشدد مظاہروں کے نیتجے میں بھارت نواز شیخ حسینہ واجد کو بطور وزیرِ اعظم استعفیٰ دے کر انڈیا جانا پڑا تھا جس کے بعد بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کی گئی تھی۔
شیخ حسینہ کو انڈیا کا حامی اور پاکستان کا مخالف تصور کیا جاتا تھا اور ان کے دورِ حکومت میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں رہے تھے، تاہم شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آتی ہوئی نظر آئی۔
گذشتہ مہینے قاہرہ میں ڈی 8 سمٹ کے دوران پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف کی بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر یونس سے ملاقات بھی ہوئی۔ پاکستانی وزیرِ اعظم کے دفتر کے مطابق دونوں رہنماؤں نے ’دو طرفہ تعلقات میں حالیہ مثبت پیشرفت پر اطمینان کا اظہار‘ کیا تھا اور ’باہمی فوائد پر مبنی ترقیاتی مقاصد‘ حاصل کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے پر اتفاق بھی کیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں بہتری نظر آئی ہے۔
گذشتہ برس نومبر میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تقریباً 20 برس تک منقطع رہنے والی سمندری تجارت بحال ہوئی تھی جب پاکستان سے سفر شروع کرنے والا کارگو بحری جہاز چٹاگانگ پہنچا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور سیاسی تعلقات تو گذشتہ برس ہی بہتر ہونا شروع ہوگئے تھے لیکن رواں برس کے ابتدائی ہفتوں میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی افواج کے درمیان بھی رابطے بڑھتے ہوئے نظر آئے۔
14جنوری کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر اور بنگلہ دیشی فوج کے پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن نے ملاقات میں ’مضبوط دفاعی تعاون‘ استوار کرنے کا اعادہ کیا اور ’دونوں برادرانہ ممالک کی شراکت داری کو بیرونی دباؤ‘ سے پاک رکھنے پر زور دیا۔ لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن اپنے دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل ظہیر احمد بابر سدھو سے بھی ملاقات کی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق اس ملاقات کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے سینیئر افسر نے جے ایف 17 تھنڈر لڑاکا طیاروں سمیت پاکستان میں بنائے جانے والے دیگر عسکری سامان میں بھی دلچپسی کا اظہار کیا۔ انڈین میڈیا پر چلنے والی کچھ خبروں میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ایسے امکانات بھی موجود ہیں کہ پاکستانی فوج کی جانب سے بنگلہ دیشی فوج کو تربیت دی جائے، تاہم پاکستانی فوج کے بیانات میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں اور بی بی سی کی جانب سے پوچھے گئے اس متعلق سوال کا بھی پاکستانی فوج کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
جنوبی ایشیا پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت گرنے کے سبب دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ انڈیا سٹدی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم عباس کہتے ہیں کہ ’پچھلے 15 برس میں شیخ حسینہ کی حکومت میں بہت سے مسائل کھڑے ہوئے تھے، 2016 میں انڈیا نے سارک اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا اور اس کے بعد بنگلہ دیش نے بھی فوراً ایسا ہی کیا تھا۔ اب پاکستان کے لیے مثبت بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں نئی انتظامیہ سارک کو دوبارہ بحال کرنا چاہتی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ڈھاکہ کے امور میں انڈیا کی مبینہ مداخلت پر بنگلہ دیش میں ناراضی پائی جاتی تھی اور وہاں کی نئی انتظامیہ اب شیخ حسینہ کی پالیسیوں کو خیرباد کہہ کر پاکستان سے تعلقات بہتر کر رہی ہے تاکہ لوگوں کی ناراضی کو کم کیا جا سکے۔
منموہن سنگھ کس پاکستانی کے اکنامک وژن پر چل کر کامیاب ہوئے ؟
دوسری جانب اگر اقتصادی نظریے سے دیکھیں تو اس وقت پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو جے ایف 17 تھنڈر طیاروں کی فروخت پر بات ہو رہی ہے۔ جب سکیورٹی تعاون بڑھے گا تو پاکستان کا بنگلہ دیش پر سٹریٹجک اثر و رسوخ بھی بڑھے گا۔ ڈاکٹر خرم عباس کے مطابق بنگلہ دیش سے تعلقات میں بہتری کے نتیجے میں پاکستان کے پاس ایک سٹریٹجک موقع آیا ہے جس کے سبب پاکستان اس خطے میں ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے بہتر ہوتے تعلقات انڈیا کے لیے سٹریٹجک تحفظات کا باعث ہوں گے کیونکہ نئی دہلی کا اس خطے میں ایک اور ملک پر اثر و رسوخ کم ہو گیا۔ انکے مطابق بنگلہ دیش اور انڈیا کے تعلقات میں پہلے ہی تناؤ پایا جاتا ہے اور ایسے میں پاکستان کے ساتھ قربت بڑھا کر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت ان تعلقات کو مذید پیچیدہ بنا رہی ہے۔