کیا فوج کی حرمت کا متنازعہ قانون پاس ہوسکے گا؟

تحریک انصاف حکومت نے فوج کی حرمت سے متعلق گزشتہ برس کے ایک متنازعہ بل کو فوجداری قوانین میں بڑے پیمانے پر ترامیم کرتے ہوئے ایک بار پھر متعارف کروایا ہے جس میں فوج کو بدنام کرنے پر دو سال قید ، پانچ لاکھ روپے جرمانہ تجویز دی گئی ہے۔ ناقدین کے خیال میں اس متنازعہ قانون کی وجہ سے حکومت کے لئے فوجداری مقدمات کا قانون بدلنے کی کوشش ناکامی پر منتج ہوگی۔

فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے والے وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے مسلح افواج کے سیاسی کردار پر تنقید کرنے والوں کی آواز دبانے کے لیے لئے سخت سزائیں نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جسے سیاسی، سماجی اور صحافتی حلقوں نے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے آزادی اظہار کے بنیادی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے جو کہ آئین پاکستان یقینی بناتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مقتدر قوتیں بار بار آئین توڑنے والے فوجی آمروں کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکیں لیکن آئین شکنوں کے سیاسی کردار پر تنقید کرنے والے سیاستدانوں اور میڈیا کی آواز دبانے کے لیے نیا قانون لایا جا رہا ہے جو کہ 1973 کے آئین کی بنیادی شقوں کے بھی منافی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک طرف مشرف جیسے طالع آزما بھگوڑے کو غداری کا جرم ثابت ہونے کے باوجود سزا سے بچایا جا رہا ہے اور دوسری جانب فوج کی سیاست میں مداخلت پر تنقید کو روکنے کے لئے سخت قانون سازی کر کے عوام کی زبانوں پر تالے لگانے کی غیر آئینی اور غیر قانونی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ حکومت کی آمرانہ سوچ کی غماز ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس اپریل میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مخالفت کے باوجود ایک مجوزہ بل کی منظوری دی تھی جس کے تحت مسلح افواج اور اس کے اہلکاروں پر جانتے بوجھتے تنقید کرنے والوں کو دو سال تک قید اور پانچ لاکھ تک جرمانے کی سزاؤں کی تجویز تھی۔ یہ کرمنل لا ترمیمی بل ستمبر 2020 کو حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن امجد علی خان کی جانب سے بطور پرائیویٹ بل پیش کیا گیا تھا لیکن اس موقع پر اس بل پر شدید تنقید کی گئی تھی جس کے بعد وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے وضاحت کی تھی کہ یہ بل پرائیویٹ ممبر کا ہے، نہ کہ حکومتی بل۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ بل پیش کیے جانے کے موقع پر حزب اختلاف کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ ممکن ہے کہ اس قانون کی آڑ میں آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جائے گی۔ واضح رہے کہ اس وقت پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 500 میں ہتک عزت کے خلاف سزا تو درج ہے مگر اس شق میں ملک کی مسلح افواج کا نام نہیں لکھا گیا ہے۔ سیکشن 500 کے متن کے مطابق ‘جب بھی کوئی، کسی دوسرے کی رسوائی، بدنامی کا باعث بنے گا تو اس کو دو سال کی قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

گزشتہ برس ترمیمی بل میں اضافہ کی جانے والی شق 500۔الف یعنی (500-A) ہے اور اس کو ‘مسلح افواج وغیرہ کے ارادتاً تمسخر اڑانے کی بابت سزا’ قرار دیا گیا تھا تاہم بل متنازعہ ہونے کے بعد اسے سرد خانے میں ڈال دیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ تحریک انصاف حکومت میں ایسے الزامات کے تحت بعض صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ان میں پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم، سینیئر صحافی عامر میر، صحافی اور وی لاگر بلال فاروقی، اسد علی طور اور عمران شفقت شامل ہیں۔

وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان نے فوجداری مقدمات کا قانون بدلنے کی منظوری دے دی ہے اور اب اسے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ وزارت قانون کی جانب سے پاکستان پینل کوڈ میں ایک نئے سیکشن 500 اے کا اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس کے مطابق جان بوجھ کر پاکستان کی مسلح افواج کو بدنام کرنے پر دو سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی جاسکے گی۔

تاہم اگر ایسی شکایت پاکستان کی مسلح افواج کی طرف سے کی جائے گی تو وہ پاک فوج کے جج ایڈووکیٹ جنرل یا جیگ برانچ کی طرف سے دائر کی جائے گی۔ سی آر پی سی اور پی پی سی میں تبدیلی کے علاوہ رحم کی اپیلوں کا طریقۂ کار بھی تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس کے مطابق تمام رحم کی اپیلوں کے لیے ہر مرحلے کے لیے وقت مقرر کیا جا رہا ہے۔ وزارت داخلہ 30 دن میں اس اپیل کو آگے بھجوانے یا واپس ارسال کرنے کی پابند ہوگی۔ گریڈ 19 کا افسر اس حوالے سے فوکل پرسن مقرر کیا جائے گا جو ان تمام رحم کی اپیلوں کی نگرانی کرے گا۔ وزارتِ قانون نے جیل قوانین میں ترامیم کے لیے بھی مختلف تجاویز حکومت کو بھجوائی ہیں۔

مجوزہ قانون کے مطابق ایف آئی آر کی ڈیجٹلائزیشن، ٹرائل کے طریقۂ کار، اپیل، الیکٹرانک و ڈیجیٹل ذرائع سے شواہد اکٹھا کرنے، فوجداری نظام میں بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ جدید آلات کے استعمال، پلی بارگین اور ویڈیو کو شواہد کے طور پر استعمال کرنا شامل ہیں۔ پاکستان پینل کوڈ میں ایک نئے سیکشن کے اضافے کے ذریعے فوج کو بدنام کرنے پر دو سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی تجویز بھی کی گئی ہے۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت نے امریکہ اور برطانیہ طرز کا آزاد پراسیکیوشن سروس کا نیا قانون لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ فوجداری قوانین میں تبدیلی سے پولیس اور عدالتی نظام میں انقلابی تبدیلی آئے گی۔

راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایک نیا شہر، لاہور کیلئے ضروری ہے

ذرائع کے مطابق کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم نے 600 سے زیادہ نکات میں ترامیم پر بریفنگ دی جو منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش ہوں گی اور پھر پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں گی۔ اس کا ابتدائی ڈرافٹ 278 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898 میں تبدیلیوں کی تجاویز، پاکستان پینل کوڈ 1860 میں ترامیم کی تجاویز، قانون شہادت آرڈر 1984، دیگر کریمنل لاز، پاکستان پریزن رول 1978 میں ترامیم، رحم کی اپیل، دارالحکومت اسلام آباد میں کریمنل پراسیکیوشن سروس ایکٹ 2021 کا ڈرافٹ بل اور اسلام آباد میں فرانزک سائنس ایجنسی ایکٹ 2021 کے بارے میں تجاویز شامل ہیں۔

وزارتِ قانون کے مطابق کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں وزیرِ اعظم کو فوجداری نظام انصاف میں اصلاحات پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ حکومت ملک کی 70سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس نظام میں بڑی تبدیلیاں لے کر آ رہی ہے جس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر اتفاقِ رائے سے فیصلہ سازی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ قانون میں تبدیلی کے لیے بین الاقوامی سطح پر رائج طریقۂ کار کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔ ترامیم کے مطابق تھانوں کو اسٹیشنری، ٹرانسپورٹ اور ضروری اخراجات کے فنڈز ملیں گے۔ عام جرائم کے مقدمات میں پانچ سال تک سزا کے لیے پلی بارگین ہو سکے گی۔ عام جرائم کی سزا پانچ سال سے کم ہو کر صرف چھ ماہ رہ جائے گی۔

تاہم قتل، زیادتی، دہشت گردی، غداری، سنگین مقدمات میں پلی بارگین نہیں ہوگی۔ مجوزہ ترامیم کے مطابق موبائل فوٹیجز، تصاویر اور آڈیو ریکارڈنگز کو بطور شہادت قبول کیا جا سکے گا۔ ماڈرن ڈیوائسز کو بھی بطور شہادت قبول کیا جائے گا جب کہ فرانزک لیبارٹری سے ٹیسٹ کی سہولت دی جائے گی۔حکومت نے نئی ترامیم میں کسی اشتہاری ملزم کی پراپرٹی کے ساتھ ساتھ اب شناختی کارڈ، پاسپورٹ، بینک اکاؤنٹس اور بینک کارڈز بلاک کرنے کی بھی تجویز دی ہے جو سرنڈر کی صورت میں عدالتی احکامات پر بحال کی جاسکتی ہیں۔

Related Articles

Back to top button