سارا کراچی انکروچمنٹ ہے

عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو ایک ماہ میں سرکاری زمین سے قبضہ ختم کراکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سندھ میں زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

سینئر بورڈ آف ریونیو کی پیش کردہ رپورٹ کو سپریم کورٹ نے غیر تسلی بخش قرار دے دیا اور چیف جسٹس نے سینئر ممبر پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں کہانیاں سنارہے ہیں۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سندھ کی آدھی سے زیادہ زمینوں پر قبضے ہیں، آپ کونوں سے تصاویر لے کر آگئے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ افسران صرف دفاترمیں بیٹھ کر گدی گرم کرتے رہتے ہیں، پندرہ پندرہ بیس بیس منزلہ عمارتیں سرکاری زمینوں پر بنی ہوئی ہیں،سپر ہائی وے،نیشنل ہائی وے،ملیر،یونیورسٹی روڈ پر عمارتیں بنی ہوئی ہیں، ائیرپورٹ کے پاس زمین نظر نہیں آتی آپ کو۔ آدھے کراچی پر قبضہ ہے،کورنگی چلے جائیں یہ سب آپ کے ریونیو والوں نے بنایا ہوا ہے، یونیورسٹی روڈ پر دیکھیں جعلی دستاویزات پر کتنی کتنی منزلہ عمارتیں بنی ہوئی ہیں، ملیر ندی میں گھر بن رہے ہیں جاکر دیکھیں،ایک عمارت بتائیں جو بنی ہو انکروچمنٹ پر اور آپ نے گرائی ہو، اب توریٹ بڑھ گیا ہوگا کہ سپریم کورٹ نےگرانےکاحکم دیا ہے ابھی گرائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس (ر) ثاقب نثار کا معاملہ

عدالت کی برہمی پر سینئر ممبر نے کہا کہ ہم نوٹس لیتے ہیں، اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نوٹس لیتے ہیں آپ نہیں، آپ روزانہ دس چٹھیاں لکھیں کچھ نہیں ہوتا یہ کام آپ کے افسران کا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت سرکاری زمین، پارکس، رفاہی پلاٹس سے قبضے ختم کرانے کا حکم دیتی رہی ہے، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو عدالتی احکامات پر سختی سے عمل درآمد کرائیں، سرکاری زمینوں پر قبضہ ختم کراکرایک ماہ میں رپورٹ دیں۔

Related Articles

Back to top button