ایک جوتے کی خاطر!

تحریر:عطاالحق قاسمی ، بشکریہ : روزنامہ جنگ

گزشتہ روز مجھے جوتا خریدنا تھا۔ایک دوست سے کہا تم میرے ساتھ چلو ،اس نے کہا تمہیں جوتوں کی کوئی کمی ہے؟میں نے اس کے اس گھٹیا جملے کو نظرانداز کیا اور اسے ساتھ چلنے پر آمادہ کر لیا۔ہم ایک بڑے شاپنگ مال میں گئے وہاں لوگ ہی لوگ اور جوتے ہی جوتے تھے ۔ایک شاپ میں داخل ہوئے تو یہاں بھی جوتے ہی دکھائی دیئے ۔میں نے مختلف شیلفوں پر نظر ڈالی تھوڑے بہت ہیر پھیر سے سب ایک جیسے ہی تھے یہاں چپلیں بھی تھیں جوگر بھی تھے۔سوچا جوگر خریدلوں جو واک اور کہیں سے دوڑ لگانے کے کام آئیں گے مگر پھر خیال آیا اکیلے دوڑنے کا کیا فائدہ یہاں کچھ چپلیںبھی اچھی لگیں مگر ان کا بکل کھولنا اور بند کرنا پڑتا ہے اس کے باوجود میں خریدنے لگا تھا مگر سوچا کہ ملک و قوم کے گھمبیر مسائل حل کرنے کے دوران بکل کھولنے اور بند کرنے میں مجھے اپنا قیمتی وقت ضائع کرنا پڑے گا ۔ اسی طرح تسموں والےشوز بھی اچھے لگے مگر وہاں بھی اپنی قومی اور ملی مصروفیات آڑے آئیں۔جوتے پہنتے اور اتارتے وقت تسمے کھولنے اور بند کرنا پڑنےتھے وقت ایسی قیمتی چیز صرف وہی لوگ ضائع کرتے ہیں جن کے دلوں میں قوم کا درد نہ ہو سو میں نے یہ آئیڈیا بھی ڈراپ کر دیا۔

ان دونوں قسم کے جوتوں کا آئیڈیا ڈراپ کرنے کے بعد میرے لئے چوائس آسان ہو گئی۔ اب صرف وہی جوتے رہ گئے تھے جنہیں پہننے اور اتارنے میں وقت ضائع نہیں ہوتا تھا۔ اب مجھے صرف انکی شکل و شباہت اور رنگ ونسل کے حوالے سے چھان بین کرنا تھی۔ان میںسے کچھ بلیک تھے کچھ برائون اور دو ایک میں وائٹ کی بھی آمیزش تھی میں تھوڑا سا کنفیوژ ہو گیا بلیک شوز اچھے لگے مگر پھر خیال آیا کہ گوروں نے کالوں کے ساتھ صدیوں بہیمانہ سلوک کیا ۔کیا اب میں بھی انہیں جوتے کی نوک پر رکھوں؟سو میرا دل نہیں مانا میں نے کالا جوتا اٹھایا اور عزت و احترام سے واپس شیلف میں رکھ دیا۔اب میرے سامنے برائون شوز دھرے تھے مجھے بہت پسند آئے خصوصاً ان میںسے ایک کا ڈیزائن تو بہت عمدہ تھا مگر برا ہو میری قومی سوچ کا وہ سب جو بلیک اینڈ وائٹ نسل سے باہر ہیں ان سب کو برائون کہا جاتا ہے اور یوں ہم سب پاکستانی برائون ہی کی ذیل میں آتے ہیں اب میں شدید ذہنی کشمکش کا شکار ہو گیا ایک طرف میری پسند تھی اور دوسری طرف عزت نفس!میں برائون ہوتے ہوئے بھی برائون جوتے پہنوں، اور انہیں گندی مندی سڑکوں پرگھسیٹتا پھروں اگرچہ ترقی یافتہ ممالک ہمارے ساتھ یہ سلوک عرصہ دراز سے کرتے چلے آ رہے ہیں مگر ہم لوگوں میں بے عزتی برداشت کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔دوسری طرف صرف باتیں بنانے والے دانشور ہمیں سمجھاتے رہتے ہیں کہ تمہاری عزت اس لئے نہیں ہے کہ تم اقبال کے اس شعر کی مکمل تفسیر ہو۔

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

اقبال کی یہ بات کچھ نہ کچھ تو میری سمجھ میں آ گئی ہے کہ ہم ابھی تک دقیانوسی ہیں ہم نےترقی کے وہ راستے اپنائے ہی نہیں جن پر چلنے کی وجہ سے اقوام مغرب کمزوروں پر کبھی براہ راست اور کبھی بالواسطہ حکومت کرتی چلی آئی ہیں ۔البتہ اقبال نے اس شعر میں جو لفظ ’’آئین‘‘ استعمال کیا ہے اس کے معنی مجھے معلوم نہیں آج لغت میں اس کے معنی تلاش کروں گا۔

میں بہت دیر تک اس نوع کی کشمکش میں سینڈوچ بنا رہا جس کی وجہ سے میرا ہمراہی دوست تنگ آگیا اور کہا تم یہاں قومی مسائل پر غوروفکر کیلئے نہیں آئے جوتا خریدو اور نکلو میں تمہاری طرح ویلا آدمی نہیں ہوں ،مجھے زندگی میں اور بھی بہت سے کام ہیں، میں اس کے سارے کاموں بلکہ کرتوتوں سے واقف تھا ،تاہم میں نے اس کی ’’جلد بازی ‘‘ کو نظرانداز کیا سو میں نے بلیک شوز کے حوالے سے اپنی ریزرویشن کے حوالے سے سیلزمین کو برائون رنگ کا بیالیس نمبر جوتا دکھانے کو کہا میں اس وقت بھول گیا کہ میں خود بھی برائون ہوں اپنے ساتھ اسے بھی کیچڑ میں گھسیٹتا پھروں گا سیلز مین نے چھان بین کے بعد کہا سر بیالیس نمبر جوتا اس وقت دستیاب نہیں ہے آپ صرف آدھ گھنٹہ انتظار کریں ابھی اپنے اسٹور سے منگوا دوں گا مگر آپ کو اس کی پیشگی ادائیگی کرنا ہو گی میں نے پیسے اس کے حوالے کئے اور پھر وقت گزاری کے لئے ہم برابر کی کافی شاپ میں بیٹھ گئے آدھے گھنٹے بعد جوتا لینے واپس دکان میں آئے تو سیلز مین نے کہا سر صرف دو منٹ رائڈر گیٹ نمبر گیارہ پر پہنچ گیا ہے بس دو منٹ میں آتا ہی ہو گا پھر یہ دو منٹ بڑھتے ہی چلے گئے اور گیٹ نمبر گیارہ کا چند قدم کا فاصلہ طے نہ ہو سکا ۔تنگ آکر میں نے دکاندار سے کہا ’’تم یہیں بیٹھو میں گیٹ نمبر گیارہ تمہارے رائڈر سمیت اٹھا کر یہیں لے آتا ہوں جس پر وہ بے غیرت ہنسا اور اس کی اس شرمناک ہنسی میں اتنی برکت تھی کہ عین اسی وقت رائڈر میرے جوتے سمیت وہاں پہنچ گیا!

واپسی پر میرے دوست نے کہا ’’یہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی ‘‘ میں نے عرض کی ’’تم لوگ اپنی یہ منحوس پیش گوئیاں کرنا بند کر دو تو شاید ہم ترقی کر پائیں‘‘اس پر میرے دوست نے جلے بھنے لہجے میں کہا ’’بھول جائو پیارے ،ہماری قوم برس ہا برس سے بے حس ہو چکی ہے ہر دور میں جوتے کھاتی رہی ہے اور اب تو جوتا بھی اسے خریدنا پڑتا ہے اچھا کیا تم نے جوتا خرید لیا کسی نہ کسی دور میں یہ تمہارے کام آئے گا تم ابھی سے فیصلہ کرلو کہ تم نے کس حاکم سے جوتے کھانے ہیں ‘‘۔

Related Articles

Back to top button