پی ٹی ایم مظاہرین کے خلاف بغاوت کا مقدمہ، اسلام آباد پولیس سے جواب طلب

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی ایم یعنی پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین کی گرفتاری پر احتجاج کرنے والے مظاہرین کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے پر اسلام آباد پولیس اور ضلعی انتظامیہ سے جواب طلب کر لیاہے۔
پی ٹی ایم اور عوامی ورکرز پارٹی کے 23 کارکنان کی گرفتاری کے خلاف ضمانت سے متعلق درخواست پر ہونے والی سماعت پر عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور اسلام آباد پولیس کے آئی جی کو طلب کیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے چیمبر میں مقدمے کی سماعت کی جہاں بابر ستار، نثار شاہ اور سکندر نعیم نے زیر حراست پی ٹی ایم کے کارکنوں کی نمائندگی کی۔عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور آئی جی سے مظاہرین کی گرفتاری سے متعلق ریکارڈ طلب کر لیا۔عدالت نے حکم دیا کہ آئی جی اسلام آباد پولیس اور ڈپٹی کمشنر 3 فروری کو صبح 10 بجے ریکارڈ کے ساتھ ذاتی طور پر پیش ہوں اور اس بات کی وضاحت پیش کریں کہ ایف آئی آر میں کس قانون کے تحت بغاوت کی دفعات شامل کی گئیں اور پرامن انداز میں احتجاج کا حق استعمال کرنے والے درخواست گزاروں کو ضمانت پر کیوں رہا نہیں کیا گیا۔
درخواست گزاروں کے وکیل عمار راشدی اور دیگر نے چیف جسٹس کو بتایا کہ درخواست گزاروں کے خلاف مقدمے کا اندراج بدنیتی پر مبنی ہے۔انہوں نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جانب سے زیر حراست ملزمان کی درخواستِ ضمانت مسترد کیے جانے پر بھی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کے طے شدہ اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا، یہ انصاف کی فراہمی کی ناکامی اور غیر مسلح پرامن شہریوں کے خلاف غداری کے مقدمے کا اندراج، اختیارات کا غلط استعمال ہے۔
یاد رہے کہ 30 جنوری کو اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد سہیل نے زیر حراست کارکنوں کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بادی النظر میں یہ دہشت گردی کا مقدمہ ہے کیونکہ دوران احتجاج مظاہرین نے حکومت اور فوج مخالف نعرے بازی کی۔ایف آئی آر میں اس بات کا ذکر کیا گیا تھا کہ متعدد مظاہرین موقع سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن پولیس حکام نے انہیں سامنے آنے پر پہچان لیا۔
دلچسپ امر یہ کہ پولیس نے ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی قانون 1997 کی کوئی دفعہ شامل نہیں کی لیکن جج نے درخواست ضمانت کے فیصلے کے آخری پیراگراف میں کہا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ یہ وہ مقدمہ ہے جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 کا پوری قوت کے ساتھ اطلاق ہوتا ہے لہٰذا یہ عدالت اس درخواست ضمانت کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔جج نے حکمنامے میں تحریر کیا کہ مذکورہ ایف آئی آر سے انکشاف ہوتا ہے کہ پاکستان اور اس کی فوج پر الزامات لگائے گئے اور نعرے بازی کی گئی اور میری سوچ کے مطابق یہ حکومت کے لیے خطرہ ہے اور اس سے لوگوں میں بھی خوف و دہشت اور عدم تحفظ کا احساس بیدار ہوا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button