مقبوضہ کشمیر: تین اضلاع کورونا سے شدید متاثر

مقبوضہ جموں اور کشمیر کی انتظامیہ نے جموں کے تین اضلاع اور پوری وادی کشمیر کو کورونا وائرس سے شدید متاثرہ علاقہ یا ریڈ زورن قرار دے دیا۔
غیرملکی خبر ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق بھارت کی وزارت صحت نے اس سے قبل تین اضلاع سری نگر، باندی پورہ، اننت ناگ اور شوپیاں کو ریڈ زورن سے قرار دیا تھا۔ ڈویژنل کمشنر پندورانگ پول نے بتایا کہ کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ہر ضلعے میں ریڈ زونز بنائے گئے ہیں اور وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کے آثار نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اس موقع پر ہم حفاظتی اقدامات کم کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، خطے کے تمام 10 اضلاع کو مزید احکامات تک ریڈ زون کے طور پر دیکھا جائے گا’۔
چیف سیکریٹری بی وی آر سبرامنیم کی جانب سے جاری احکامات کے مطابق اضلاع کو کورونا وائرس کی صورت حال کے مطابق ریڈ اور اورنج زونز میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔مقبوضہ ریاست کی انتظامیہ نے جموں کے سمبا، کٹھوا اور ریڈ زون، اودھمپور، رئیسی، رامبان اور راجوڑی کو اورنج جب کہ ڈوڈا، کشتوار اور پونچھ کو گرین زون قرار دیا ہے۔انتظامیہ نے مقبوضہ وادی کے تمام اضلاع کو ریڈ زون میں تبدیل کردیا ہے۔
خیال رہے کہ بھارت کی حکومت نے کورونا وائرس کےباعث نافذ لاک ڈاؤن میں 17 مئی تک توسیع کردی ہے تاہم مخصوص پابندیوں میں نرمی بھی کردی ہے۔
وزارت صحت کی جانب سے جاری گائیڈ لائنز میں اورنج زون میں بین الریاستی آمد ورفت کی اجازت دی گئی ہے جب کہ اشیائے ضروریہ کی رسد کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ بھارت کی وزارت صحت نے دفاتر میں کام بحال کرنے کی اجازت دی ہے لیکن ملازمین کی تعداد کو کم کرکے صرف 30 فیصد رکھنے کی شرط عائد کی گئی ہے۔
ریاستی حدود میں گرین زونز میں بھی مزید نرمی کی گئی ہے جہاں چند مخصوص دکانوں کے علاوہ تمام دکانیں کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مقبوضہ جموں اور کشمیر میں کورونا وائرس کے 726 کیسز کی تصدیق ہوئی ہے اور اب تک 8 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ مقبوضہ جموں اور کشمیر میں طویل عرصے سے انٹرنیٹ معطل ہے اور وہاں کے شہری معلومات کے حصول سے محروم ہیں جب کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد اس سے متعلق احتیاطی تدابیر اور دیگر معلومات وہاں نہیں پہنچ سکی ہیں۔
مقبوضہ جموں اور کشمیر میں 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی جانب سے خصوصی حیثیت ختم کرکے لاک ڈاؤن کے بعد حالات کشیدہ ہیں اور شہری طویل عرصے سے محصور ہیں۔ بھارتی انتظامیہ نے حریت قیادت سمیت ہزاروں سیاسی کارکنوں اور سماجی رضاکاروں کو گرفتار کرلیا ہے اور پورے خطے میں دنیا کا طویل ترین انٹرنیٹ بریک ڈاؤن کیا گیا ہے تاہم جنوری سے صرف مخصوص 2جی موبائل انٹرنیٹ سروس بحال کردی ہے۔ مقبوضہ جموں اور کشمیر میں ڈاکٹروں کی مرکزی ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر سہیل نائیک کا کہنا تھا کہ وائرس کا خطے میں پیدا ہونا ناممکن ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھارت میں کہیں اور سے چلا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم لوگوں کو ویڈیوز کے ذریعےآگاہ کرناچاہتے ہیں جو 2جی رفتار میں ممکن نہیں ہے، تیزرفتار انٹرنیٹ کی عدم موجودگی سے ہم معذور ہوگئے ہیں’۔
انسانی حقوق کی تنظیم انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن نے حکام کو ایک خط میں کہا ہے کہ کشمیر میں کورونا وائرس کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے انٹرنیٹ کی رفتار پریشان کن حد تک سست ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے مارچ میں ہی مطالبہ کیا تھا کہ مقبوضہ جموں اور کشمیر سے پابندیوں فوری ہٹادی جائیں اور انٹرنیٹ کو بحال کردیا جائے کیونکہ مقبوضہ خطے میں کورونا سے تباہی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ پاکستان نے مطالبہ کیا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں شہریوں کو وائرس سے بچانے کے لیے ادویات اور دیگر ضروری سامان پہنچانے اور خطے تک رسائی دی جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button