مقبوضہ کشمیر : عمر عبداللہ کی بہن کا حراست کیخلاف عدالت سے رجوع

مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی بہن سارہ عبداللہ نے اپنے بھائی کی غیرقانونی طور پر حراست اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ان پر عائد کیے گئے الزامات کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ سارہ عبداللہ نے کہا کہ ان کے بھائی کو حراست میں رکھنا آزادی اظہار سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور یہ تمام سیاسی حریفوں کو طاقت سے دبانے کے عمل کا حصہ ہے۔
واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو 5اگست کو مقبوضہ وادی کی آرٹیکل 370 کے ذریعے خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے مستقل حراست میں رکھا ہوا ہے۔
عمر عبدااللہ کو بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھا گیا تھا لیکن گزشتہ ہفتے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ان پر مختلف الزامات عائد کیے گئے تاکہ حراست کو جواز فراہم کیا جا سکے۔سارہ عبداللہ نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی درخواست میں موقف اپنایا کہ گزشتہ ماہ کے دوران حراست میں لیے گئے تمام افراد کے خلاف اسی طرح سے گرفتاری کے حکم نامے جاری کیے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ حکم کے مطابق حکومتی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنانا بھارتی ریاست پر تنقید کے مترادف ہے، یہ جمہوری سیاست کی کھلی خلاف ورزی اور بھارت کے آئین کی پامالی ہے۔انہوں نے عمر عبداللہ کی تمام تقاریر، خطاب اور پیغامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پہلی مرتبہ حراست کے بعد سے اب تک انہوں نے صرف اور صرف امن اور تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔سارہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات عائد کیے گئے ہیں اور انہیں عوام میں مقبولیت اور ان پر حاصل اثر و رسوخ کی وجہ سے الزامات کا نشانہ بنایا گیا۔
بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق عمر عبداللہ پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے شدت پسندی اور انتخابات کے بائیکاٹ کے مطالبات کے دوران اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی۔
الزامات کے مطابق حریت رہنماؤں کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کے مطالبات کے دوران سابق یونین منسٹر عمر عبداللہ عوام پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ جب انہوں نے انتخابات میں حملوں اور بائیکاٹ کے مطالبات کے باوجود عوام سے ووٹ ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا تو ان کے حلقے میں لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے نکلی تھی۔اپنی درخواست میں سارہ عبداللہ نے ان مضحکہ خیز الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمرعبداللہ پر لوگوں کو انتخابات میں شرکت اور ووٹ کے جمہوری حق کے استعمال پر آمادہ کرنے کے الزامات ہیں۔
اس کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی مخالفت کی اور ٹوئٹر پر لوگوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دی لیکن ان الزامات کے خلاف ثبوت کے طور پر کسی بھی ٹوئٹر پوسٹ کا حوالہ نہیں دیا گیا۔
قانون کے تحت عمر عبداللہ کو 6ماہ تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے جس کا خاتمہ 5فروری 2020 کو ہوا تھا۔ تاہم 5فروری کو بھارتی حکومت نے عمر عبداللہ اور ایک اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کا استعمال کرتے ہوئے کسی ٹرائل کے بغیر مزید 3ماہ تک حراست میں رکھنے کی منظوری دی تھی جس میں ایک سال تک توسیع کی جا سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button