بھارت میں مساجد کو گرانے کیلئے’’مغل کارڈ‘‘ کون کھیل رہا ہے؟


بھارتی وزیراعظم مودی کی سرپرستی میں انتہا پسندانہ ہندوتوا پالیسی پر پورے زور اور جبر کے ساتھ عملدرآمد جاری ہے، جسکے تحت مسلمانوں کی قدیم مساجد کو ایک کے بعد ایک نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہندوتوا کے ٹھیکیدار دعویٰ کر رہے ہیں کہ مغل حکمرانوں بالخصوص چھٹے فرمانروا اورنگ زیب نے کئی مسجدیں مندر توڑ کر تعمیر کروائی تھیں۔ جن مسجدوں پر دعویٰ کیا گیا ہے ان میں بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد سرفہرست ہیں، اتر پردیش کے دو بڑے شہروں میں واقع ان مسجدوں کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور لگتا ہے کہ ان کی تقدیر کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہی سنایا جا سکتا ہے۔
دی پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کی موجودگی کے باوجود بھارت کی عدالتیں مساجد کو توڑنے کے لیے دائر کی جانے والی عرضیاں سماعت کے لیے قبول کر رہی ہیں، کانگریس حکومت کی جانب سے 1991 میں منظور کیے جانے والے قانون کی رو سے بھارت میں 15 اگست 1947 کو عبادت گاہیں جس شکل میں تھیں ان کی وہ شکل و حیثیت برقرار رہے گی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر اور مغلوں کی تاریخ کے ماہر ڈاکٹر سید علی ندیم رضوی نے بتایا کہ اورنگ زیب نے بے شک مندر تڑوائے مگر ایسے علاقوں میں جہاں بغاوت زوروں پر تھی۔ بھارت کی معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر رامیشور پرساد باہوگنا نے کہا کہ ہم نے مان لیا لہ اورنگ زیب نے مندر تڑوائے، لیکن اس بات کے بھی ٹھوس شواہد ملتے ہیں کہ اسکے دور حکومت میں کئی مندروں کو زمین فراہم کی گئی، بنارس کے جنگم واڑی میں ایک مندر کو 178 ہیکٹر زمین عطیہ کی گئی۔
ڈاکٹر سید علی ندیم رضوی کے مطابق ماضی کے ادوار میں ایک دستور تھا کہ جب کوئی بادشاہ کسی دوسرے بادشاہ کی سلطنت پر قبضہ کرتا تھا یا جنگ میں اسے ہراتا تھا تو وہ ہارنے والے بادشاہ کی عبادت گاہیں تڑوا کر اپنی بنواتا تھا۔ سینٹرل یونیورسٹی آف کرناٹک کے شعبہ تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالمجید نے دعویٰ کیا ہے کہ اورنگ زیب نے بنارس اور متھرا میں مندر ہندو راجپوتوں کی سفارش پر تڑوائے تھے، عبادت گاہیں صرف مغلوں کے دور میں نہیں بلکہ ہر دور میں توڑی گئیں، عبادت گاہوں کو توڑنے اور جلانے کی حمایت میں بیانات ہندو شہنشاہوں کی کتابوں میں بھی ملتے ہیں۔
دہلی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر شمس الاسلام نے بتایا کہ تاریخ کی مستند کتابوں میں درج ہے کہ کس طرح بدھسٹوں اور جینوں کی عبادت گاہیں توڑی گئیں۔پروفیسر رامیشور پرساد باہوگنا کہتے ہیں کہ اورنگ زیب کے عہد میں جب اقتدار کی بقا کا مسئلہ پیدا ہوتا تھا تو انہیں اس وقت جو اچھا لگتا تھا وہ وہی کرتے تھے، تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ دہلی سلطنت سے لے کر مغل حکمرانوں تک میں اورنگ زیب واحد بادشاہ تھے جن کی سرحد برما سے لے کر بدخشاں تک اور کشمیر سے لے کر دکن کی آخری سرحد تک قائم تھی اور ایک مرکز کے تحت قائم تھی۔ اگر وہ سخت گیر بادشاہ ہوتے تو اتنی بڑی سلطنت قائم ہوتی؟
پرویز اشرفی نے لکھا ہے کہ ہندی زبان سیکھنے اور سکھانے میں اورنگ زیب کو اتنی دلچسپی تھی کہ انہوں نے ایک ڈکشنری تیار کروائی تھی جس کے ذریعے فارسی جاننے والا آسانی سے ہندی سیکھ سکتا تھا۔ ڈاکٹر شمس الاسلام کہتے ہیں کہ اگر حکومت کی حمایت یافتہ تنظیموں اور ان سے جڑے لوگوں کو ماضی میں ہی جانا ہے تو صرف مغلوں کے نہیں بلکہ دیگر حکمرانوں کے ادوار پر بھی بات ہونی چاہئے، یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر مغلوں کا دور اسلامی راج تھا تو آج اس ملک میں ہندوؤں کی آبادی 80 فیصد کیسے ہے؟
پروفیسر رامیشور پرساد کے مطابق شہنشاہوں اور سلطانوں کی پالیسیاں بہت پیچیدہ ہوتی تھیں، اس پیچیدگی کے سبب کبھی لگتا تھا کہ وہ برداشت کرنے والے ہیں تو کبھی لگتا تھا کہ وہ ان ٹالرنٹ ہیں۔ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر دو لوگوں کی دعوت پر ہندوستان آئے تھے، ان میں سے ایک کا نام علاء الدین اور دوسرے کا نام رانا سنگرام سنگھ تھا، آج کہا جاتا ہے کہ مغل باہر سے آئے تھے اگر رانا سنگرام سنگھ بابر کو ہندوستان کو فتح کرنے کے خط لکھ رہے تھے تو وہ کسی پردیسی کو نہیں بلکہ ایک طاقت کو بلا رہے تھے، سنگرام سنگھ اور بابر کا مقابلہ کرنے والوں میں حسن خاں میواتی اور ابراہیم لودھی کے فرزند محمود لودھی شامل تھے، بابرنامہ میں دونوں کو کفار کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔

Related Articles

Back to top button