افغانستان شدت پسند گروپوں کی پناہ گاہ کیسے بنا؟

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے دو سالوں کے دوران سکیورٹی کا ابھرتا ہوا منظرنامہ پیچیدہ اور تشویش ناک ہے۔ افغانستان کی طرف سے ہمسایہ ممالک میں ہونے والی دراندازی پر جہاں پاکستان اور ایران سراپا احتجاج ہیں وہیں افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
انڈیپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی انخلا اور اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد 15 اگست کو طالبان کے افغانستان پر قبضے کے دو سال مکمل ہو گئے۔پالیسی سازوں کو افغانستان میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ عسکریت پسند گرپوں کی دوبارہ واپسی پر بھی تشویش ہے۔
افغانستان میں ان دو سالوں کے دوران سکیورٹی کی صورتحال بھی تشویش ناک ہے۔ اگرچہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہے، لیکن دوحہ معاہدے کے تحت انسداد دہشت گردی کی ذمہ داریوں کے لیے طالبان کا عزم اور صلاحیتیں بیک وقت بہتر اور تشویش ناک ہیں۔طالبان کا افغانستان میں داعش خراسان کے خلاف رویہ جارحانہ جبکہ القاعدہ کی موجودگی سے متعلق انکاری ہے۔
دو سال اقتدار میں رہنے کے بعد طالبان نے طاقت کے زور پر پورے افغانستان میں اپنی رٹ قائم کی ہے۔ البتہ ابھی تک افغان طالبان کو اقتدار پر اپنی اجارہ داری کے حوالے سے کسی قسم کے چیلنج کا سامنا نہیں اور وہ ملک میں امن وامان کی بحالی اور تشدد کی سطح کو نیچے لانے میں کامیاب رہے ہیں۔اگست 2021 سے افغانستان میں داعش کے حملوں میں لگ بھگ 1,095 افراد جان سے گئے۔ طالبان کا افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی صلاحیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ کوئی بھی گروپ ان کی منظوری یا حمایت کے بغیر افغانستان سے باہر کام نہیں کر سکتا۔لہٰذا، طالبان کے مختلف عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ پیچیدہ تعلقات یہ سمجھنے کے لیے ایک اہم عنصر ہیں کہ طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں شدت پسند تنظیموں کا چیلنج کس طرح تیار ہو رہا ہے۔
علاقائی ماہرین اور پالیسی ساز اس معاملے پر دو مخالف نظریات رکھتے ہیں۔ ایک مکتبہ فکر کا خیال ہے کہ طالبان کے دو سالہ دور حکومت میں افغانستان عسکریت پسند گروپوں کا مرکز بن گیا ہے۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ تشویش ناک اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی جون کی رپورٹ ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان نے دوحہ معاہدے کے تحت اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ افغانستان سمیت پورے خطے میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور طالبان کے دور حکومت میں تقریباً 20 عسکریت پسند گروپوں کو نقل وحرکت اور آپریشن کی زیادہ آزادی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے افغان سرزمین سے پاکستان میں بڑھتے ہوئے حملے افغان طالبان کے دوحہ معاہدے سے متعلق وعدے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندی کی لہر میں 73 فیصد اضافہ ہوا۔ ٹی ٹی پی افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ صرف ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند ہی نہیں بلکہ کچھ افغان شہری بھی ٹی ٹی پی کی چھتری تلے پاکستان کے خلاف حملوں میں حصہ لیتے پائے گئے۔
اس نے افغان طالبان کو ایک مذہبی حکم نامہ جاری کرنے پر مجبور کیا جس میں اپنے شہریوں کو خبردار کیا گیا کہ وہ افغانستان سے باہر کسی محاذ میں حصہ نہ لیں۔ تاہم طالبان افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی سے انکاری ہیں۔
اسی طرح جولائی 2022 میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے کابل میں مارے جانے کے باوجود طالبان افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں۔طالبان کے موقف سے مطابقت رکھنے کے لیے القاعدہ نے بھی ایمن الظواہری کی موت کو تسلیم نہیں کیا۔ اگرچہ سیف العدیل القاعدہ کے معاملات کو اس کے نئے ڈی فیکٹو لیڈر کے طور سنبھال رہے ہیں۔نوے کی دہائی کے وسط کے برعکس افغانستان طالبان
اداکارہ منشا پاشا نے شادیوں میں کمی کی وجہ بتا دی؟
کے تحت جہادیوں کا مرکز نہیں بن سکا۔ تاہم، خطرے کی موجودگی برقرار ہے۔