پنجاب میں کرونا زائرین اور تبلیغیوں نے زیادہ پھیلایا

پنجاب میں کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے تصدیق شدہ کیسز کے اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب میں 2200 سے زائد متاثرین میں نصف سے زائد حال ہی میں دو مذہبی اجتماعات میں شریک ہوئے تھے۔ 10 اپریل 2020 تک سامنے آنے والے حقائق کے مطابق 662 افراد جو پنجاب میں کرونا وائرس کے مریض کے طور پر رپورٹ ہوئے وہ رائے ونڈ سے منسلک تبلیغی ارکان تھے۔ اس کے علاوہ ایران سے آنے والے 700 زائرین بھی کرونا کا شکار نکلے۔ اس طرح پنجاب میں رپورٹ ہونے والے2200 کیسز میں سے 1362 افراد یا تو زیارت کیلئے ایران گئے تھے یا وہ رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع میں شریک ہوئے تھے اس طرح وہ خود کرونا کا شکار ہو کر مزید افراد میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنے۔
رائے ونڈ کا تبلیغی اجتماع ہر سال مارچ میں ہوتا ہے اور لاکھوں افراد دنیا بھر سے شریک ہوتے ہیں۔ اس سال یہ اجتماع 12 مارچ کو اس وقت منعقد ہوا جب کرونا وائرس پھیلا ہوا تھا۔ یہ پانچ روزہ اجتماع تیسرے روز جب باضابطہ طور پر بارش اور حکومتی اپیل پر معطل کیا گیا تو اس روز بھی ہزاروں افراد نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور وہ مسلسل اجتماع گاہ میں موجود رہے۔ جس کے بعد 10 اپریل تک نتیجہ یہ نکلا کہ 662 افراد جو پنجاب میں کرونا وائرس کے مریض کے طور پررپورٹ ہوئے وہ رائے ونڈ سے منسلک تبلیغی ارکان تھے۔ اس کے علاوہ 700 زائرین بھی کرونا کا شکار ہوئے جبکہ 68 قیدیوں اور 794 عام شہریوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والے 12ہزار سے زائد ارکان کو کورنٹین سنٹرز میں رکھا گیااور صوبے کے33 اضلاع میں تبلیغی ارکان کےلیے کورنٹین سنٹرز بنائے گئے ہیں۔
شیعہ زائرین اور دیوبندی تبلیغی اراکین میں کرونا وائرس کی تشخیص کے کیسز میں اضافے کے بعد عوامی حلقوں کی طرف سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ ان دو اجتماعات کی وجہ سے صوبہ کرونا وائرس کی آماجگاہ بنا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حکومت کی کوتاہی تھی کہ انہوں نے ا یران سے آنے والوں کو قرنطینہ کئے بغیر سیاسی مفادت کے حصول کیلئے گھروں کو جانے دیا جبکہ رائے ونڈ کے تبلیغی جماعت والوں نے ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے حکومت کی اجتماع نہ کرنے کی وارننگ کو نظرانداز کر دیا اور حکومت بھی اس پر خاموش رہی۔ اجتماع کے تیسرے دن بارش تبلیغی اجتماع کو ختم کرنے پر مجبور نہ کرتی تو نقصان بہت زیادہ ہوتا۔ اس کے باوجود ہزاروں نے ہٹ دھرمی سے وہاں رہنے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے کرونا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا۔
ناقدین کا مزید کہنا ہے کہ اصل قصور وار وہ مذہبی رہنما ہیں جو ان اجتماعات کے ذمہ دار تھے جبکہ بنیادی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے جس نے انتہائی نالائقی کا مظاہرہ کیا اور اس وبا سے منسلک خطرات کو سنجیدہ نہیں لیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد کے دیہی علاقے بارہ کہو میں بھی تبلیغی جماعت کے اراکین میں کرونا وائرس کی تصدیق کے بعد انھیں مسجد میں قرطینہ کرتے ہوئے پورے علاقے کو سیل کر دیا گیا تھا۔ یہ لوگ بھی رائیونڈ لاہور کے تبلیغی اجتماع میں شریک ہوئے تھے۔ اسی طرح لیہ کی انتظامیہ نے ضلع میں تبلیغی مشن پر موجود تمام ٹیمز کو اکٹھا کرنے کے بعد مقامی مرکز کو قرنطینہ مرکز قرار دے دیا ہے۔
دوسری طرف فرقہ پرست عناصر کی جانب سے پاکستان میں کرونا پھیلانے کا الزام اپنے اپنے مخالف فرقوں پر عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں کرونا کا جو پہلا مریض سامنے آیا وہ ایران سے آنے والے زائرین میں سے ایک تھا لہذا ملک میں کرونا وائرس لانے کا الزام سوشل میڈیا پر ایران سے آنے والے پاکستانی اہل تشیع زائرین پر عائد کیا جارہا ہے۔ تبلیغی جماعت کے اراکین میں کرونا کے بڑی تعداد میں کیسز سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر تبلیغی جماعت کو ملک میں کرونا وائرس پھیلانے کا سبب قرار دیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف عمرہ زائرین میں کرونا وائرس کی تشخیص کے بعد کرونا وائرس پاکستان لانے کی ذمہ داری عمرہ کرکے واپس آنے والے سنی مسلک کے مسلمانوں پر ڈالی جا رہی ہے۔ دنیا بھرمیں کرونا وائرس ایک خطرناک جان لیوا مرض کے طور پر سامنے آیا ہے لیکن پاکستانی سوشل میڈیا پر اسے شیعہ، سنی اور تبلیغی رنگ دیا جا رہا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button